اسلام آباد،6اگست (اے پی پی):ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیدا وار کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عون عباس کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا،قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) اور نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ کے کام کے طریقہ کار،کارکردگی،بجٹ اور ان اداروں کے امور کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
سمیڈا کے کام کے طریقہ کار اور کارکردگی کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی وزارت صنعت و پیداوار کے ما تحت حکومت پاکستان کا ایک خود مختار ادارہ ہے۔ سمیڈا کا قیام اکتوبر 1998 میں ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی ترقی کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ۔ سمیڈا نہ صرف حکومت پاکستان کے لیے ایک ایس ایم ای پالیسی ایڈوائزری ادارہ ہے بلکہ دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ ادارہ ملک میں ایس ایم ایز کی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے اور ایس ایم ایز سے متعلق مالیاتی امور پر حکومت کو مشورہ دینے کے لیے پالیسی مرتب کرتا ہے اور ایس ایم ای نمائندہ اداروں کی انجمنوں / چیمبرز کی ترقی کیلئے سہولت فراہم کرتا ہے اور مختلف شعبوں کی ترقی کے لئے سیکٹر سٹڈیز اور تجزیہ کرتا ہے۔ اس ادارہ کا یہ بھی کام ہے کہ مختلف سیمینارز، ورکشاپس اور تربیتی پروگراموں کا انعقاد اور سہولت کاری کے ذریعے ایس ایم ایز کو مضبوط کرنا ہے۔ اس ادارے کا مشن یہ ہے کہ عالمی سطح پر مسابقتی ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی، سازگار ماحول اور معاون خدمات کے ذریعے جو قومی معیشت کے لیے پائیدار ترقی کو فروغ دے ان ا مور کو موثر بنانا ہے۔
یہ ادارہ ایس ایم ایز کی تعداد، پیمانے اور مسابقت کو بڑھانے میں مدد کرتے ہوئے ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی کے ذریعے روزگار پیدا کرنے اور قومی آمدنی میں اضافے کیلئے گائیڈ لائنز فراہم کرتاہے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں 5.2ملین ایس ایم ایز ہیں جن کا جی ڈی پی میں حصہ 40فیصد ہے، ایکسپورٹ میں 30فیصد اور روزگار کی فراہمی میں 70فیصد حصہ ہے۔اس ادارے کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے، چار صوبائی دفاتر ، اکیس ریجنل دفاتر اور 16بزنس سینٹر ہیں ، 2007 میں ایس ایم ای کی پہلی پالیسی بنائی گئی تھی، 18ویں ترمیم کے بعد صوبے ایس ایم ای کو بھی دیکھتے ہیں، کل ملازمین کی تعداد 100 ہے، 2022-23میں اس ادارے کا بجٹ 286ملین تھا اور2023-24میں 358 ملین روپے ہے، اس ادارے کی بدولت 1.1ملین روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور 66ارب کا ملک کیلئے ریونیو پیدا ہوا 8ارب کی کلیسٹر ڈویلپمنٹ ہوئی ہے۔700 سے زائد بزنس گائیڈ لائنز بنائی گئی ہیں، اس ادارے نے 450سے زائد بزنس پلان بنائے ہیں، 1.41لاکھ لوگوں کو بزنس کے حوالے سے مدد فراہم کی ہے، 633کمپنیوں کی اس ادارے کی مدد کی وجہ سے پیداوار میں بہتری آئی ہے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر عون عباس نے کہا کہ 2019کی حکومت نے ملک میں تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ اور سمیڈا کے حوالے سے کچھ پالیسیاں بنائی تھیں، اس وقت کی حکومت کی بنائی گئی پالیسیز کے تحت کتنے لوگ مستفید ہوئے آگاہ کیا جائے، کون سے برانڈ پر سمیڈا کام کر رہا ہے تفصیلات فراہم کی جائیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملک کی آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ایسے ادارے ان کیلئے موثر منصوبہ بندی کریں تاکہ ملک میں بہتری لائی جا سکے۔ایسی پالیسیاں اور پلان ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کے تحت نئے کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان اور خاص طور پر جنوبی بلوچستان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے، یہ ادارہ تربت، گوادر اور خاران سمیت دیگر پسماندہ علاقوں کے طلبہ کے حوالے سے موثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرے۔
وفاقی وزیر صنعت و پیداور نے کہا کہ ہمیں بینکوں کے سسٹم میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، اس طرح کے اداروں کو فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ ان کی استعداد کار بہتر ہواور ادارے ترقی کر سکیں۔ نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ کے کام کے طریقے کار،کارکردگی اوربجٹ کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ یہ پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے، اس کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹر ہے جس میں ایک چیئرمین اور 8ممبران شامل ہیں ، 1976میں این ایف سی کی ماتحت قائم کی گئی تھی۔ 2008کے بعد حکومت کی طرف سے امپورٹ کردہ کھاد کی ترسیل کی جاتی ہے، اس ادارے کی ملازمین کی تعداد 333ہے جن میں سے 38ریگولر اور 295 کنٹریکٹ پر ہیں۔
چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں انکشاف کیا گیا کہ کنٹریکٹ پر کوئی ٹائم لائن نہیں ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کنٹریکٹ کے رولز کو ریگولیشن کے مطابق کیوں نہیں بنایا گیا، یہ کنٹریکٹ کب بنائے گئے، کیا طریقے کار تھا، اس حوالے سے مکمل تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 8.4ملین ٹن کھاد ٹرانسپورٹ کی گئی ہے، اس ادارے کی بدولت گوادر بندر گاہ کو مناسب فعال بنایا گیا ہے، اس ادارے کی کھاد سٹور کرنے کی کیپسٹی 115,000 میٹرک ٹن ہے، چاروں صوبوں میں رجسٹر ڈ ڈیلرز کی تعداد 1608ہے۔ اس ادارے کا بنیادی کام یہ ہے کہ ملک میں یوریا کی کمی کو پورا کرتا ہے، کھاد کے سٹاک کو یقینی بناتا ہے اور امپورٹ کی یوریا کیلئے سٹوریج اور ڈیلرز کیلئے نیٹ ورک بنانا ہے۔تمام صوبوں میں کھا د سٹور کرنے کیلئے گودام بنائے گئے ہیں، اوکاڑہ،امین آباد،جھنگ،لودھراں،رسالپوراور شہداد پور میں سٹور بنائے گئے ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ ادارہ حکومت سے کوئی مالی امداد اور گرانٹ نہیں لیتا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کے 6سے 7ارب روپے بینکوں میں پڑے ہیں جن کی انٹرسٹ سے تنخواہیں اور دیگر اخراجات مینج ہو جاتے ہیں۔وزیر صنعت و پیداوار نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر ان اداروں کی گیس کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے جس کی وجہ سے یوریا کی امپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی، پہلے تقریبا چار لاکھ میٹرک ٹن کھاد امپورٹ کی جاتی تھی۔کمیٹی کو ادارے کی گزشتہ 15سال کی کرکردگی کے بارے بھی آگاہ کیا گیا۔
سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ صوبہ پنجاب کے بارڈر کے قریب صوبہ بلوچستان میں گیس کے ذخائر ملے تھے، سکیورٹی کا مسئلہ بنا کر ان پر کام نہیں کیا جا رہا ہے۔اگر موثر حکمت عملی اختیار کی جائے اور کمپنیاں مقامی افراد کو سکیورٹی پر رکھیں تو بہتری آ سکتی ہے، مقامی گیس سے نمایا ں بہتری آئے گی۔قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سیکرٹری پٹرولیم کو بھی طلب کر لیا۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز، سینیٹرز سید مسرور احسن،سینیٹر حسنہ بانو، سینیٹر سیف اللہ سرور خان نیازی، سینیٹر محمد عبدالقادر علاوہ وفاقی وزیر صنعت پیداوار رانا تنویر حسین، سیکرٹری صنعت وپیدا وار اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔