پاکستان کا او آئی سی کی نمائندگی کرتے ہوئے، حکومتوں سے اسلاموفوبیا کے خلاف فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ

3

اسلام آباد، 15 مارچ ( اے پی پی):اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بین الاقوامی یوم انسداد اسلاموفوبیا کے موقع پر پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت، تعصب اور عدم برداشت کے دیگر مظاہر کے خلاف “فیصلہ کن” اقدامات کریں۔

 اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر منیر اکرم نے 193 رکنی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد اسلاموفوبیا کے خلاف اجتماعی کوششوں کو یکجہتی اور ہمدردی کے ساتھ فروغ دینا ہونا چاہیے –

2022 میں جنرل اسمبلی نے پاکستان کی شراکت سے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس کے تحت 15 مارچ کو بین الاقوامی یوم انسداد اسلاموفوبیا کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔

 سفیر منیر اکرم نے او آئی سی کی جانب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا کسی ایک خطے تک محدود نہیں  بلکہ یہ مغرب اور مشرق دونوں میں زور پکڑ رہا ہے۔

پاکستانی مندوب نے نشاندہی کی ہے  کہ اب اسلاموفوبیا کو سیاسی فائدے اور مقبولیت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے، جو خوف، تعصب اور نفرت جیسے بدترین انسانی جذبات کو ہوا دیتا ہے۔ کچھ ممالک میں مسلمانوں کو منظم طریقے سے محروم اور دبایا جا رہا ہے۔

اس تناظر میں، سفیر منیر اکرم نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی پالیسیاں اور قوانین مذہبی رواداری کے لیے غیر مبہم عزم کا اظہار کریں۔میڈیا اور غلط معلومات کو نفرت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے،کوئی قانون مسلمانوں کی شناخت دبانے یا ان کے خلاف امتیازی سلوک کے لیے استعمال نہ ہو،کسی بھی ریاست کے کسی بھی شہری کو اس کے عقیدے کی بنیاد پر دوسرے درجے کا شہری نہ بنایا جائے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ  اسلاموفوبیا پر مبنی نظریات، پالیسیاں اور اقدامات اسی خطرناک رجحان کی پیروی کر رہے ہیں، نفرت اور عدم برداشت حالیہ دور میں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تیزی سے پھیل رہی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ سیاسی بیانیے اب مسلمانوں کو خارج، محروم اور بدنام کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں – یہاں تک کہ ان معاشروں میں بھی، جو رواداری، کثیرالثقافتی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

سفیر منیر اکرم نے بعض مغربی ممالک کی کوششوں کو بھی سراہا، جن میں سویڈن اور ڈنمارک شامل ہیں، جنہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف قوانین بنائے، خاص طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کو جرم قرار دیا، تاکہ آزادیٔ اظہار کو نفرت اور عدم برداشت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔