“اُڑان پاکستان” صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ کم ترقی، کم پیداوار اور کم ہمت کے چکر کو توڑنے کے لیے ہمارا عزم ہے، احسن اقبال

2

اسلام آباد، 15 اپریل (اے پی پی): و فاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال پائیدار ترقی کے  حصول کے لیے  امن، ہم آہنگی، طویل المدتی سیاسی استحکام، پالیسیوں میں تسلسل اور مسلسل اصلاحات کو ناگزیر قرار دیا اور  کہا ہے کہ یہی وہ ستون ہیں جنہیں کامیاب قوموں نے ترقی یافتہ بننے کے لیے اپنایا۔

آج  پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس  کے زیر اہتمام پاکستان سوسائٹی آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس  کے زیر اہتمام”اُڑان پاکستان: ڈیجیٹل تبدیلی کے ذریعے ترقی”  کے عنوان سے منعقدہ تین روزہ سالانہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس ایک مشترکہ قومی وژن کی عکاسی کرتی ہے جو جدت، ٹیکنالوجی اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی کو جامع اور پائیدار ترقی کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر اپنانے کی خواہاں ہے۔ “اُڑان پاکستان صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ کم ترقی، کم پیداوار اور کم ہمت کے چکر کو توڑنے کے لیے ہمارا عزم ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے تحت “اُڑان پاکستان” کو ایک جامع قومی وژن کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے تاکہ معیشت، معاشرت اور ڈیجیٹل میدان میں تبدیلی لائی جا سکے۔ “یہ صرف پرواز کی تمثیل نہیں، بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ پاکستان نئے مواقع اور جدت کی طرف پرواز کے لیے تیار ہے۔”

انہوں نے معیشت دانوں کے کردار کو کلیدی قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاشی پالیسی سازی میں ان کا کردار اہم ہے کیونکہ معیشت “سماجی علوم کی ملکہ” ہے جو معاشروں کو محدود وسائل کے درست استعمال سے متعلق فیصلے کرنے کے قابل بناتی ہے۔

انہوں نے “اُڑان پاکستان” کی برآمدی بنیادوں پر مبنی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے تحت پالیسی کی مدد سے تجارت کو فروغ دیا جائے گا، صنعتی معیار بندی اور علاقائی روابط بڑھائے جائیں گے۔کوئی بھی ملک اس وقت تک پائیدار ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ زرمبادلہ میں اضافہ نہ کرے۔

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کی جانب سے سیکٹورل ایکسپورٹ اسٹریٹیجیز، عالمی تجارتی میلوں میں شمولیت، اور برآمد کنندگان کو بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی میں سہولت فراہم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے 2029 تک برآمدات کو 60 ارب ڈالر سے زیادہ کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ ترقی جامع ہونی چاہیے، اور روزگار کی فراہمی اور نوجوانوں کی ترقی کے ذریعے مساوات اور غربت کے خاتمے کو یقینی بنانا چاہیے۔ “اُڑان پاکستان” کے تحت ہنر مند افرادی قوت کی تیاری اور صنعتی تبدیلیوں کے مطابق تربیت پر زور دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ قومیں جو ٹیکنالوجی کو اپناتی ہیں، ترقی کے مراحل کو جست لگا کر عبور کرتی ہیں، جبکہ مزاحمت کرنے والی پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن صرف ایپس اور پورٹلز کا نام نہیں، بلکہ یہ نظام کو چست اور قابل رسائی بنانے کا ذریعہ ہے۔احسن اقبال نے “ای-پاکستان” کو قومی تبدیلی کی حکمت عملی کا نیا ستون قرار دیا، جس کے تحت فِن ٹیک، ایگری ٹیک، اور گرین ٹیک جیسے شعبوں میں ڈیجیٹل ایکو سسٹمز کے ذریعے روزگار اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے جارہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو علاقائی آئی ٹی حب بنانے کے لیے پالیسی سازی کی جا رہی ہے، جس میں مصنوعی ذہانت (AI) کی لیبارٹریاں، ڈیجیٹل فنانس، سائبر سکیورٹی، اور کلاؤڈ انفراسٹرکچر شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مستقبل کی معاشی مزاحمت موسمیاتی اعتبار سے ہوشیار منصوبہ بندی پر منحصر ہے۔

انہوں نے “لیونگ انڈس انیشی ایٹو” کا بھی حوالہ دیا، جو پاکستان کی تاریخ میں ماحولیاتی توازن کی بحالی کی ایک بڑی کوشش ہے، جس کا مقصد انڈس بیسن میں ایکولوجیکل توازن کی بحالی ہے۔توانائی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ توانائی صنعتی ترقی کا خون ہے۔ پاکستان کے پاس 2030 تک 40 گیگا واٹ تک شمسی اور ہوائی توانائی کی صلاحیت موجود ہے۔ ہم نجی شعبے کو گرین انرجی، ڈیجیٹل گرڈز اور انفراسٹرکچر میں شراکت داری کے لیے دعوت دے رہے ہیں۔

ماضی کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں کو “وژن 2010” اور “وژن 2025” جیسے طویل المدتی منصوبوں کا سہرا دیا جن کے تحت سی پیک، توانائی کے منصوبے، اور نالج پارکس جیسے منصوبے شروع کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ “اُڑان پاکستان وژن 2035” کے ذریعے اسی جذبے کو دوبارہ زندہ کیا جائے، جس کا مقصد 2035 تک پاکستان کو ایک ہزار ارب ڈالر کی معیشت بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جن چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، نوجوانوں کی بے روزگاری، اور پیداواری خلا — ان کا حل دور اندیشی اور نظم و ضبط سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں دنوں کے بجائے دہائیوں میں سوچنا ہوگا۔آخر میں انہوں نے کہا کہ دنیا ڈیجیٹل رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور پاکستان کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ “اب سوچنے کا وقت ختم ہو چکا ہے، اب عمل کا وقت ہے — اور مل کر، ہمیں ‘اُڑان پاکستان’ کو 21ویں صدی کی ایک کامیاب کہانی بنانا ہے،”