اسلام آباد، 4 اپریل (اے پی پی): وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن سردار اویس احمد خان لغاری نے کہاہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کی جاری سنجیدہ کوششوں کے باعث آئندہ تین سے چار سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی، جو ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
وزیرِ توانائی نے میڈیا کو وزیراعظم کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں کمی سے متعلق حالیہ اعلان پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے اخراجات میں اضافے کی بڑی وجوہات میں زرمبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ، شرح سود، ایندھن کی قیمتیں، مہنگے پاور پلانٹس، غیر مؤثر صلاحیت کا اضافہ اور ٹرانسمیشن منصوبہ بندی کا فقدان شامل ہیں۔
تاہم، حکومت نے غیر مؤثر پاور پلانٹس کی بندش، معاہدوں کی منسوخی اور مختلف انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) سے مذاکرات کے ذریعے 3,696 ارب روپے کی بچت کی، جو بالآخر صارفین کو منتقل کی جائے گی۔
وزیر توانائی نے کہا کہ باقی ماندہ IPPs کے ساتھ بھی مذاکرات جاری ہیں تاکہ باہمی رضامندی سے معاہدوں میں نظرثانی کے ذریعے ٹیرف میں کمی ممکن بنائی جا سکے۔ آئندہ بجلی کی خریداری کم ترین لاگت کی بنیاد پر کی جائے گی اور نئے پلانٹس انڈیکیٹو جنریشن اینڈ کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (IGCEP) کے تحت لگائے جائیں گے۔ حکومت سنگل بائر ماڈل سے باہر نکلنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس حوالے سے ایک مناسب تجویز وزیراعظم کو آئندہ چند ہفتوں میں پیش کی جائے گی۔
اویس لغاری نے کہا کہ اگر ٹرانسمیشن نظام میں رکاوٹیں نہ ہوں تو صارفین کو سستی بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ حکومت ٹرانسمیشن نظام کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کرے گی، جس سے بجلی کے نرخوں میں مزید کمی آئے گی۔
انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھی ٹرانسمیشن نظام کی بہتری اور رحیم یار خان تا مٹیاری ٹرانسمیشن لائن کی تکمیل کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی درخواست کی جائے گی۔
وزیر نے کہا کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری مرحلہ وار کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد، فیصل آباد اور گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنیز کی نجکاری ہو گی، جبکہ دوسرے مرحلے میں لاہور، ملتان اور ہیزیکو الیکٹرک سپلائی کمپنیز شامل ہوں گی۔ حیدرآباد، سکھر اور پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنیز کے لیے کنسیشن ماڈل اپنایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئٹہ اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنیز کو بہتری کے لیے حکومتی تحویل میں رکھا جائے گا اور ان کے لیے مینجمنٹ کنٹریکٹ کا ماڈل اپنایا جائے گا۔ بلوچستان میں 27 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 55 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ گڈو اور نندی پور پاور پلانٹس کی نجکاری بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاور پلاننگ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (پی پی ایم سی) قائم کی گئی ہے جو پاور ڈویژن کی پالیسی اور تکنیکی معاونت فراہم کرے گی، جبکہ غیر مؤثر GENCOs کو بند کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2.4 ٹریلین روپے کے سرکلر ڈیٹ اسٹاک کو آئندہ 6 برسوں میں مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ چین پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے اور ان کے قرضوں کی دوبارہ ترتیب کے لیے بھی بات چیت جاری ہے۔