سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت اور کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا مشترکہ اجلاس، پاک ایران بارٹر ٹریڈ پالیسی کو ازسرنو مرتب کرنے پر اتفاق

1

اسلام آباد، 16اپریل( اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت اور   قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان اورایران کے  درمیان بارٹر ٹریڈ پالیسی کو ازسرنو مرتب کرنے پر اتفاق کیا گیاہے،  نئی پالیسی میں اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ درآمدات وبرآمدات پر پاکستان یا ایران کسی بھی فریق کو نقصان نہ ہو،  پالیسی کا ابتدائی مسودہ مشترکہ کمیٹی کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ کو باضابطہ طور پر پیش کیا جائے گا۔

کمیٹی نے وزارت تجارت کو 10 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔    تجارت کے شعبے میں بڑھتے ہوئے  چیلجز کے تناظرمیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت اور   قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا پہلا مشترکہ اجلاس بدھ کویہاں  منعقد ہوا،اجلاس میں  پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر تجارت کے طریقہ ہائے کار پر تفصیلی غور کیا گیا۔  سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور سینیٹر انوشہ رحمان احمد خان نے اجلاس کی مشترکہ صدارت کی۔

اجلاس میں دونوں کمیٹیوں کے اہم اراکین شریک ہوئے، اجلاس میں  سیکریٹری تجارت، سیکریٹری خزانہ اور وزیر تجارت کی عدم شرکت پر   برہمی کا اظہار کیاگیا۔ اراکین کمیٹی نے  بارٹر ٹریڈ سے متعلق موجودہ پالیسیوں کو پیچیدہ اور غیرموثر  قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے درآمدات و برآمدات میں شدید رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اجلاس میں بتایا کہ ممالک حکم ہائے امتناعی  پر نہیں چلتے ، انہوں نے نشاندہی کی کہ کسٹمز اتھارٹی نے عدالت کے حکم امتناع کو جواز بنا کر کام روک دیا ہے۔ سینیٹر انوشہ رحمان نے کہاکہ    رکاوٹیں برقرار رہیں تو  60 ارب ڈالر کی برآمدات کا خواب ایک خواب ہی رہ جائے گا۔ کمیٹی نے خاص طور پر پاکستان کسٹمز کو ”غیر منطقی طرزعمل” کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کے اسٹے آرڈرز کے باعث سرحدی تجارت جمود کا شکار ہو گئی ہے اور کسٹمز حکام پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کے لیے آمادہ نہیں۔

 اجلاس میں ایرانی نمائندوں نے  بتایا کہ 1200 ایرانی ٹرک جو پہلے رپورٹ شدہ تعداد 600 سے دو گنا ہیں، سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ کمیٹی نے  بارٹر ٹریڈ پالیسی، جو صرف ایرانی  اشیاء کی درآمد کی اجازت دیتی ہے اوردرآمدی پالیسی آرڈر، جس میں ہر درآمد پر آئی فارم کی شرط رکھی گئی ہے، کو بحران کی بنیادی وجہ اور دو متضاد پالیسیوں کے باہمی ٹکرائو کو قرار دیا۔

اجلاس میں بتایاگیا کہ اس  تضاد سے نہ صرف بارٹر سسٹم  غیر موثر بنا چکا ہے بلکہ تاجروں میں بھی شدید ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ  ایران اور پاکستان کے درمیان کسی سرکاری بینکاری چینل کی عدم موجودگی نے مالیاتی لین دین کو بھی ناممکن بنا دیا ہے۔اجلاس میں بتایاگیا کہ  ایرانی ٹرانسپورٹرز کو تفتان سے این ایل سی ڈرائی پورٹ تک آمد و رفت کے لیے کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکس کے برابر بینک گارنٹی جمع کرانا لازم ہے، جو موجودہ مالیاتی نظام کی غیر موجودگی میں ممکن نہیں۔ اجلاس میں وزارت تجارت کے حکام نے  اعتراف کیا کہ سرحدی تجارت کا موجودہ نظام انتہائی پیچیدہ  ہے جس سے   قانونی تجارت متاثرہورہی ہے۔  کمیٹی نے بارٹر ٹریڈ پالیسی کو ازسرنو مرتب کرنے پر اتفاق کیا،  نئی پالیسی میں اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ درآمدات وبرآمدات پر پاکستان یا ایران کسی بھی فریق کو نقصان نہ ہو،  پالیسی کا ابتدائی مسودہ مشترکہ کمیٹی کی منظوری کے بعد وفاقی کابینہ کو باضابطہ طور پر پیش کیا جائے گا۔ کمیٹی نے وزارت تجارت کو 10 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔