وفاقی وزیر سید عمران احمد شاہ کا پاکستان بیت المال ہیڈکوارٹرز کا دورہ

0

اسلام آباد، 16 اپریل– وفاقی وزیر برائے تخفیفِ غربت و سماجی تحفظ، سید عمران احمد شاہ  نے آج  سیکریٹری نوید احمد شيخ کے ہمراہ  پاکستان بیت المال کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا جہاں مینیجنگ ڈائریکٹر نے انہیں ادارے کے جاری فلاحی منصوبوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر کو بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 1.5 لاکھ سے زائد مریضوں کو مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے 15.4 ارب روپے کی مالی امداد دی گئی۔ تعلیم کے میدان میں، 32 ہزار سے زائد طلبہ کو گیارہویں جماعت سے پی ایچ ڈی تک تقریباً 97 کروڑ روپے کی اسکالرشپس فراہم کی گئیں۔ خواتین کی خودمختاری کے لیے 165 ویمن ایمپاورمنٹ سینٹرز کے ذریعے 4.75 لاکھ سے زائد خواتین کو مختلف ہنر سکھائے گئے، جبکہ بچوں کے تحفظ کے لیے 46 سویٹ ہومز اور 160 چائلڈ لیبر اسکولز فعال ہیں۔

 مینیجنگ ڈائریکٹر پاکستان بیت المال  نے  بتایا کہ اس کے علاوہ 17 پناہ گاہوں سے 97 لاکھ سے زائد افراد نے فائدہ اٹھایا ہے، اور “کھانا سب کے لیے” اسکیم کے تحت روزانہ 30 فوڈ وینز مختلف ریجنز میں خوراک فراہم کر رہی ہیں۔ معذور افراد کو مصنوعی اعضا، آلات اور مالی امداد مہیا کی گئی ہے، جبکہ لاہور میں بزرگ شہریوں کے لیے پہلا سینئر سٹیزن ہوم بھی قائم کیا جا چکا ہے۔

وفاقی وزیر نے پاکستان بیت المال کی صحت اور تعلیم کے شعبے میں کاوشوں کو سراہا، تاہم باقی منصوبوں پر  بہتر نتائج کے لیے کوشش پر زور دیا۔

انہوں نے ہدایت کی کہ فلاحی اداروں، خصوصاً پناہ گاہوں اور سویٹ ہومز پر ماہانہ سرپرائز وزٹس کیے جائیں گے تاکہ خدمات کی مؤثر فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

 ویمن ایمپاورمنٹ سینٹرز  اور چائلڈ لیبر اسکول کے ٹرینرز کے لیے جدید تربیتی کورسز ترتیب دیے جائیں،  اور  ان مراکز میں دیے گئے  سرٹیفکیٹس کو عملی زندگی میں مفید بنانے کے لیے بین الاقوامی معیار کے مطابق کیا جائے  تمام منصوبوں کی کارکردگی کا باقاعدہ آڈٹ اور اثراتی جائزہ لیا جائے، اور  شفافیت کو بہتر بنانے اور اخراجات کو صحت اور تعلیم کے منصوبوں پر مرکوز کرنے کے لیے ڈیجیٹائزیشن کی جائے۔

  انہوں نے سابق فاٹا اور خیبرپختونخوا میں بچوں کے تحفظ کے مراکز اور اسکولز کو ترجیحی بنیادوں پر وسعت دینے اور تھلیسیمیا مراکز سمیت دیگر خدمات کو ملک بھر میں پھیلانے کی ہدایات بھی دیں۔

وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ سماجی تحفظ کے منصوبوں کو مؤثر، پائیدار اور شفاف بنانے کے لیے نگرانی، تربیت، اور ٹیکنالوجی کا امتزاج انتہائی ضروری ہے۔