اقوام متحدہ، 30 اپریل (اے پی پی): پاکستان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن قابض نظام کو معمول بنانے سے قائم نہیں ہو سکتا۔
مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال، بشمول مسئلہ فلسطین، پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اعلیٰ سطحی کھلی بحث کے دوران قومی بیان دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ فرانس اور سعودی عرب کی زیرِ صدارت جون میں منعقد ہونے والی دو ریاستی حل سے متعلق کانفرنس ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس قابلِ عمل نتائج دے گی،جن میں فلسطینی ریاست کے قیام کا ایک واضح ٹائم لائن، بستیوں کی توسیع کو روکنے اور واپس لینے کے اقدامات، شہریوں اور مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات، اور فلسطین کی اقوام متحدہ میں مکمل، مساوی اور جائز رکنیت شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے سفارت کاری کے بجائے جنگ کا راستہ اختیار کیا اورغزہ مکمل محاصرے میں ہے۔ خوراک، پانی اور ادویات کی رسائی بند ہے، جس نے دو ملین سے زائد افراد کو قحط کی طرف دھکیل دیا ہے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ مغربی کنارے میں ایک متوازی بحران جاری ہے جس میں جبری بے دخلی،مسلسل بستیوں کی توسیع،اور روز مرہ کی بنیاد پر پرتشدد کارروائیاں شامل ہیں۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کا دائرہ غزہ اور مغربی کنارے تک محدود نہیں بلکہ لبنان اور شام تک پھیل چکا ہے،جہاں وہ جنگ بندی معاہدوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
پاکستانی مستقل مندوب نے کہا کہ عالمی برادری کو اس تباہی اور تاریکی کے ماحول میں عملی اقدام اٹھانا ہوگااور کہا “جنگ بندی کے بغیر نہ شہریوں کا تحفظ ممکن ہے، نہ انسانی امداد، اور نہ ہی کوئی سیاسی عمل۔”
پاکستان نے مکمل اور بلا رکاوٹ انسانی امداد کی رسائی کا بھی مطالبہ کیا۔ سفیر عاصم نے کہا کہ انسانی امداد کوئی رعایت نہیں بلکہ قانونی حق ہے۔ امدادی کارکنوں، قافلوں،اور طبی ٹیموں کو محفوظ اور آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔انہوں نے کہا کہ قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر معمول بنانا ناقابلِ قبول ہے۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ انسانی امداد صرف علامات کا علاج کرتی ہے؛ جبکہ اصل بیماری اسرائیلی قبضہ کا علاج صرف انصاف سے ممکن ہےاور کہا کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اگر تشدد کا خاتمہ قبضے کے خاتمے کے بغیر کیا جائے تو یہ صرف مستقبل میں ایک اور تنازعے کا پیش خیمہ بنے گا۔