اسلام آباد، 26مئی(اے پی پی):قانون و انصاف کمیشن آف پاکستان کے زیرِ اہتمام “پاکستان کے عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کا استعمال: امکانات اور وعدے” کے عنوان سے سمپوزیم منعقد کیا، جس میں معزز جج صاحبان، بین الاقوامی ماہرین، اور اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی، سمپوزیم میں عدالتی اصلاحات کے مستقبل پر ڈیجیٹل تبدیلی کے تناظر میں غور کیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کا انضمام محض جدیدیت نہیں بلکہ عدالتوں کو زیادہ قابل رسائی، شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے اس سمپوزیم کو بروقت اور مستقبل بین قرار دیا۔
اس سمپوزیم میں بین الاقوامی ماہرین کی آراء بھی شامل تھیں جن میں چین کی سپریم پیپلز کورٹ سے تعلق رکھنے والی ماہر مح لی شیاؤہوئی نے چین کے عدالتی اصلاحاتی ڈیجیٹل سفر کو شیئر کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر حسن مندل، ریکٹر استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی، ترکی نے عالمی تناظر میں عدالتوں میں ٹیکنالوجی کے اطلاق پر روشنی ڈالی۔جبکہ پروفیسر ڈاکٹر چیتن الماس، غازی یونیورسٹی ترکی نے عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت (AI) کے بڑھتے ہوئے کردار پر گفتگو کی۔
وفاقی سیکرٹری برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام زرار ہشام خان نے پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے منصوبے بیان کیے اور عدالتی شعبے میں تبدیلی کے لیے ادارہ جاتی تعاون پر زور دیا۔
اصلاحاتی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے چیف جسٹس نے حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے متعارف کردہ ڈیجیٹل اختراعات جیسے کہ ای-فائلنگ، فیصلوں پر کیو آر کوڈز، ویڈیو لنک سماعتوں کی توسیع، شہری رائے کا پورٹل، اور مقدمات کی نگرانی کے لیے ڈیٹا اینالٹکس کا استعمال کا ذکر کیا۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ڈیجیٹل خلیج، بدلتے قانونی ڈھانچے، اور سائبر سیکیورٹی کے خطرات اب بھی اہم چیلنجز ہیں۔