اقوام متحدہ، 8 جولائی( اے پی پی): اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ افعانستان کے مسائل کے خاتمے کیلئے عالمی سطح پر ایک جامع اور شراکتی فریم ورک کی فوری ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عملی اور حقیقت پسندانہ مصروفیت، مکالمے اور سفارتکاری کے ذریعے ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ پاکستان نے عبوری حکومت سے اعلیٰ سطحی رابطے مستقل طور پر برقرار رکھے ہیں۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے 19 اپریل کو کابل کا دورہ کیا، جبکہ مئی میں بیجنگ میں افغانستان، پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی بات چیت کامیابی سے ہوئی۔ ہم ماسکو فارمیٹ، ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس، اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے علاقائی پلیٹ فارمز کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان عوام نے شدید مصائب کا سامنا کیا ہے۔ چالیس سالہ خانہ جنگیوں، غیر ملکی مداخلتوں، تشدد اور دہشتگردی نے اس ملک کو تباہی، عدم استحکام، انتشار اور بے دخلی سے دوچار کیا جس کے اثرات سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے گئے جبکہ چار دہائیوں میں پہلی مرتبہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ دیکھنے کو ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ایک پُرامن افغانستان کے لیے نئی امیدیں جنم لے رہی ہیں،ایسا افغانستان جو اپنے شہریوں کے ساتھ، ہمسایوں اور عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگ ہو، جہاں ہر فرد کو،خواہ وہ کسی بھی جنس، نسل، سیاسی وابستگی یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو عزت اور انصاف حاصل ہو اور ایک ایسا خوشحال افغانستان جو دہشتگردی سے پاک ہو اور عالمی برادری کا حصہ بن چکا ہو
ان کا کہنا تھا کہ ہم اقوام متحدہ کی زیر قیادت کوششوں، جیسے دوحہ عمل، کی حمایت کرتے ہیں تاکہ عبوری حکومت سے باضابطہ رابطہ قائم رکھا جا سکے۔ پاکستان نے سب سے پہلے مسلسل روابط کی ضرورت پر زور دیا اور ایک واضح روڈ میپ تجویز کیا تھا۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا قریبی ترین ہمسایہ ملک ہے۔ ہمارے دونوں عظیم ممالک جغرافیہ، تاریخ، ثقافت، نسل، زبان، مذہب اور تہذیب کے مضبوط برادرانہ رشتوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ ایک فوری ہمسایہ ہونے کے ناتے، افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے لیے ایک قدرتی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی ہے اور اپنی محدودات کے باوجود ہم کمزور افغانوں کی حفاظت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سفیر نے کہا کہ ہمیں افغان معیشت اور بینکاری نظام کو بحال کرنا ہوگا، بشمول مالی اثاثوں کو غیر منجمد کرنا، تاکہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے جبکہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ افغانستان کے پورے علاقے پر صرف ایک ہی انتظامیہ کا کنٹرول ہے اور اس کو کوئی سنجیدہ چیلنج درپیش نہیں۔ ہمیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو افغانستان کو دوبارہ جنگ کی طرف دھکیل سکتے ہیں جبکہ پاکستان اپنی عوام کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات جاری رکھے گا۔
سفیر نے بتایا کہ ہمارے پاس ایسے مصدقہ شواہد بھی موجود ہیں جن کا مقصد پاکستان کے تزویراتی انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا ہے،پاکستان عالمی برادری کی ان توقعات سے مکمل طور پر متفق ہے جو عبوری حکومت سے وابستہ کی گئی ہیں، بالخصوص خواتین کے حقوق اور وسیع تر سیاسی و سماجی شمولیت کے حوالے سے۔ ہم افغانستان میں خواتین اور بچیوں پر جاری پابندیوں پر شدید تشویش رکھتے ہیں، جو نہ صرف بین الاقوامی معیارات بلکہ اسلامی روایات کے بھی خلاف ہیں۔
سفیر نے مزید کہا کہ پاکستان علاقائی اور عالمی رابطوں کی کوششوں میں شراکت کے لیے تیار ہے۔ ان کوششوں میں واضح اہداف، باہمی اقدامات، اور ایک حقیقت پسندانہ روڈ میپ ہونا چاہیے جو افغانستان کے منفرد سماجی و سیاسی ڈھانچے کے مطابق ہو اور وہاں کی عوام کے بہترین مفاد میں ہو۔ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کے قیام کے لیے اپنا تعمیری اور فعال کردار جاری رکھے گا۔