انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں صومالیہ کے یوم آزادی کی مناسبت سے تقریب کا اہتمام

1

اسلام آباد۔1جولائی  (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) نے پاکستان افریقہ انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اینڈ ریسرچ کے تعاون سے صومالیہ کے یوم آزادی کی مناسبت سے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سہیل محمود، پاکستان میں صومالیہ کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن یاسین میر محمد، جبوتی اور صومالیہ کے لیے پاکستان کے سفیر شاہد علی سیہر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر صدر پاکستان افریقہ انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اینڈ ریسرچ سینیٹر مشاہد حسین سید مہمان خصوصی تھے جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری (افریقہ) وزارت خارجہ حامد اصغر خان نے کلیدی خطاب کیا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے پاکستان اور صومالیہ کے درمیان بھرپور یکجہتی کی تعریف کرتے ہوئے موغادیشو میں شہید ہونے والے پاکستان کے امن فوجیوں اور1978ء کے اوگاڈن تنازعے کے دوران فوجی امداد کو اس بات کے ثبوت کے طور پر یاد کیا کہ اسلام آباد ہمیشہ ضرورت کی گھڑی میں موغادیشو کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سہیل محمود نے یکم جولائی 1960ء کی تاریخی اہمیت کو یاد کیا جب برطانوی اور اطالوی صومالی لینڈ کے اتحاد نے صومالی جمہوریہ کو جنم دیا جو افریقہ کی ڈی کالونائزیشن میں ایک سنگ میل اور صومالی عوام کی آزادی، وقار اور خودمختاری کی امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے پاکستان اور صومالیہ کے دیرینہ تعلقات کا ذکر کیا جس کی جڑیں باہمی احترام، مشترکہ عقیدے اور عوام کے درمیان روابط پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صومالیہ کی آزادی کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں شامل تھا۔ انہوں نے صومالیہ میں پاکستانی امن دستوں کی جانب سے بین الاقوامی امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ صومالیہ کی سلامتی اور استحکام کے لیے پاکستان کے عزم کے حصے کے طور پر کی جانے والی انمول خدمات کو بھی اجاگر کیا۔ سہیل محمود نے مضبوط تعلیمی روابط پر روشنی ڈالی جس کے تحت صومالی طلبہ پاکستان میں زیر تعلیم ہیں اور اب اپنے وطن میں قومی ترقی کی کوششوں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی اہمیت کا ذکر کیا ۔انہوں نے اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے فورمز پر مشترکہ پوزیشنز کا ذکر کیا اور  ‘‘انگیج افریقہ’’پالیسی کے تحت صومالیہ کے ساتھ تعاون کو مزید گہرا کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔

 سفیر حامد اصغر نے تجارت، سرمایہ کاری اور تعاون میں افریقہ کی وسیع صلاحیت کا ذکر کیا۔ انہوں نے ترجیحی تجارتی معاہدے اور دواسازی، بندرگاہوں اور زراعت جیسے شعبوں میں مشترکہ منصوبوں پر زور دیا۔

 سینٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ کی ڈائریکٹر آمنہ خان نے پاکستان کی’’انگیج افریقہ‘‘ پالیسی میں افریقہ کے مرکزی مقام اور صومالیہ کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے باہمی احترام اور مشترکہ اہداف کی بنیاد پر تجارت، سرمایہ کاری، تربیت اور ادارہ جاتی ترقی میں زیادہ تعاون پر زور دیا۔

پاکستان میں صومالیہ کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن یاسین میر محمد نے گورننس، انفراسٹرکچر، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے کاروبار اور سرمایہ کاری میں حالیہ پیش رفت پر روشنی ڈالی۔ سفیر شاہد علی سیہر نے صومالی قوم کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کی اور 1960ء میں صومالیہ کی آزادی کے بعد سے تاریخی اور بڑھتے ہوئے تعلقات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے تعاون کا ذکر کیا جس میں صومالیہ کے نیشنل آئی ڈی سسٹم کے لیے 14 ملین ڈالر کی گرانٹ اور صومالی طلبہ کے لیے وظائف میں اضافہ شامل ہے۔ کثیرالجہتی فورمز پر صومالیہ کی حمایت کو سراہتے ہوئے انہوں نے انسداد دہشت گردی، 72 ملین ڈالر سے زیادہ تجارت کو فروغ دینے اور سمندری رابطوں کی تلاش میں زیادہ تعاون پر زور دیا۔ سفیر خالد محمود نے کہا کہ صومالی باشندوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی تعلیمی سہولیات سے مستفید ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور صومالیہ کے تعلقات میں مستقبل میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔