کوئٹہ،30 جولائی (اے پی پی): وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ سید عمران احمد شاہ اور وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت وجہیہ قمر نے کہا ہے کہ بلوچستان میں غربت کی تخفیف اولین ترجیح ہے، خواتین کی ترقی و خوشحالی معاشی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرئے گی، غربت محض آمدنی کی کمی کا نام نہیں یہ محرومی، مواقع کی عدم دستیابی اور وسائل تک غیر مساوی رسائی کا نتیجہ ہے،غربت کا خاتمہ اور شمولیتی ترقی تنہا ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے زراعت میں خواتین لیڈرشپ و جدیدیت کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سید عمران احمد شاہ نے کہا کہ میرا یہ بلوچستان کا پہلا دورہ ہے میں یہ واضح کرتا ہوں کہ ہمارے دل بلوچستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ جب وزارت ملی تو یہ عہد کیا کہ ہم مچھلی کھلانا نہیں بلکہ پکڑنا سیکھائیں گے دوسرا غربت میں تخفیف کرنی ہے اور بلوچستان اس حوالے سے پہلی ترجیح ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ کس طرح سماجی تحفظ کے ذریعے شمولیتی ترقی نہ صرف لوگوں کی زندگیوں کو بدلتی ہے بلکہ غربت کی جڑوں کو بھی براہِ راست نشانہ بناتی ہے۔ وزارت غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ میں ہمارا یقین ہے کہ غربت محض آمدنی کی کمی کا نام نہیں یہ محرومی، مواقع کی عدم دستیابی اور وسائل تک غیر مساوی رسائی کا نتیجہ ہے۔اس ضمن میں میں پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ کی کوششوں کو خاص طور پر اجاگر کرنا چاہوں گا، جو گروتھ فار رورل ایڈوانسمنٹ اینڈ سسٹین ایبل پراگریس پروجیکٹ کے ذریعے کی جا رہی ہیں۔ یہ چھ سالہ منصوبہ یورپی یونین کی مالی معاونت سے، انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کے زیرِ انتظام، FAO اور PPAF کی شراکت سے چلایا جا رہا ہے اس منصوبے کا دائرہ سندھ کے 12 اور بلوچستان کے 10 اضلاع سمیت ملک کے کل 22 پسماندہ اور ضرورت مند علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ گراسپ کا اصل مقصد دیہی پاکستان میں غربت کا خاتمہ اور پائیدار و شمولیتی معاشی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ اس کا خاص ہدف یہ ہے کہ خواتین و حضرات کے لیے یکساں آمدنی اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) کی پیداواری صلاحیت اور منافع کو بڑھایا جائے جو بنیادی پیداوار، خدمات اور ویلیو ایڈیشن کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔جہاں تک حقیقی کامیابیوں کا تعلق ہے، تو وہ ہمارے سامنے ہیں۔ گراسپ کے تحت 399 میچنگ گرانٹس تقریبا 1.52 ارب روپے کی لاگت سے دیے گئے، جنہوں نے دیہی کاروباری افراد کو براہِ راست فائدہ پہنچایا۔ اس منصوبے نے 24 مالیاتی اداروں کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے،جبکہ 13 مالیاتی اداروں کو کریڈٹ گارنٹی اسکیمز فراہم کرنے میں مدد دی گئی۔ تیجتاً 22 مالیاتی ادارے اب خصوصی مالی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔صلاحیت سازی ہماری حکمتِ عملی کا لازمی جز رہی ہے۔ 1271 ایس ایم ایز کو مالی خواندگی اور کاروباری منصوبہ سازی کی تربیت دی گئی، تاکہ وہ اپنے کاروبار کو پائیدار اور منافع بخش بنا سکیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ 415 ایس ایم ایز جن میں تقریبا ً 48 فیصدخواتین کی ملکیت ہیں کو مالیاتی اداروں سے جوڑا گیا، جس سے حقیقی مالی شمولیت اور دیہی خواتین کی خود مختاری کو فروغ ملا۔ یہ تمام کامیابیاں ثابت کرتی ہیں کہ غربت کا خاتمہ اور شمولیتی ترقی تنہا ممکن نہیں۔ حکومت، عالمی شراکت داروں، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کے درمیان مربوط کوششوں سے ہی ہم ایک ایسا مستقبل بنا سکتے ہیں جہاں ہر پاکستانی کو برابر کے مواقع میسر آئیں۔ میں اپنی وزارت کی طرف سے اس عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ ہم ان شراکت داریوں کو مزید مضبوط بنائیں گے، سماجی تحفظ کے نیٹ ورک کو وسعت دیں گے اور گراسپ جیسے پروگراموں کو مزید پھیلائیں گے، تاکہ ہم منصوبہ بندی اور عزم کے ساتھ لوگوں کی زندگیاں بدلیں اور ملک سے غربت کا خاتمہ کر سکیں۔
وفاقی وزیر تخفیف غربت و سماجی تحفظ نے سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کے طالبات کیلئے 200 سکالرشپس کا اعلان، و بلوچستان کیلئے 100 وہیل چیئرز اور 100 سلائی مشینوں کی فراہمی کا اعلان کیا ہے۔ فی سکالر شپ پر سالانہ ایک لاکھ خرچہ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کی خودمختاری پیغام پاکستان ہے ہمیں صوبائی تعصب سے نکلنا چاہیے کیونکہ بہت سی قوتیں ہمیں تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو پر امن و خوشحال پاکستان دینا ہے۔ وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت وجہیہ قمر نے کہا کہ بلوچستان کا وہ چہرہ پوری دنیا کو دیکھا رہے ہیں جس پر ہمیں فخر ہے، آج کا دن بلوچستان کے لوگوں کی امپاورمنٹ کو منانے کا ہے، پاکستان اس وقت ترقی کرے گا جب بلوچستان ترقی کرے گا بلوچستان اس وقت ترقی کرے گا جب یہاں کی خواتین، یوتھ کو امپاور کیا جائے، وفاقی وزارت تعلیم کے ساتھ پیشہ ورانہ تربیت کا شعبہ بھی ہے، این ایف سی ایوارڈ کے علاہ سکالرشپس وغیرہ میں بلوچستان کے بچوں کی کپیسٹی بلڈنگ دے رہے ہیں تاکہ پوری دنیا میں یہی بچے اپنا لوہا منوا سکیں۔ بلوچستان کے بچوں کو جب بھی موقع ملا ہے انہوں نے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کی فوڈ باسکٹ کے ساتھ پوری دنیا کا فوڈ باسکٹ بن کر ابھرے گا ہمارے پاس لوگوں کی آگے بڑھنے کی تڑپ ہے، ہمیں آئیسولیشن میں کام کی بجائے اس موقع کو توسیع دیکر اسٹرکچرائزڈ بنانے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو اکنامک ایکو سسٹم کا حصہ بنایا جائے، عالمی سطح پر تیل میں بلوچستان کے ضلع لورالائی نے تیسرا پوزیشن حاصل کی ہے۔ خواتین کسی سے کمزور نہیں ہیں بس انہیں مواقع کی ضرورت ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی نے کہا کہ حکومت بلوچستان وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں حقیقی ترقی کیلئے سنجیدہ ہے، خواتین کے آواز کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے۔
صوبائی مشیر ترقی نسواں ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے کہا کہ خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے ساتھ ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈونرز کے ساتھ ان مسائل کو اٹھایا گیا ہے خواتین کے حوالے سے پروجیکٹس کو مارکیٹ کے مطابق بنانے سے بہت سے مسائل ختم ہو سکتے ہیں ہمیں زمینی حقائق کو مد نظر رکھنے کے ضرورت ہے۔ خواتین کو سپورٹ کرنا صرف انصاف کا تقاضا نہیں بلکہ معاشی ترقی کے آگے بڑھانا ہے۔
سیکرٹری زراعت نور احمد پرکانی نے کہا کہ پاکستان کی 51 فیصد خواتین کی صلاحیتوں کو ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، زراعت سمیت مختلف شعبوں میں خواتین مردوں کے ساتھ مدد گار کے طور پر کام کرتی رہیں ہیں، معیشت میں خواتین کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ویمن ڈائریکٹریٹ قائم کی گئی ہے ، ویمن فرینڈلی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں 4 لاکھ پر آرگینک کاٹن کی پیداوار ہو رہی ہے۔ ایس ڈی جیز اور این ڈی جیز پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
مولانا انوار الحق حقانی نے کہا کہ خواتین کی 4 حیثیت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہے، اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور مرد پر سب سے زیادہ حق ماں کا قرار دیا ہے پھر والد اور باقی رشتہ دار کے حقوق ہیں۔
اس موقع پر گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل، صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ حمید درانی و دیگر لوگ بھی موجود تھے۔