اسلام آباد، 28 اگست (اے پی پی): وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق، رانا تنویر حسین نے کسانوں کے مفادات کے تحفظ اور گندم کی منڈی کے استحکام کے ذریعے غذائی خودکفالت کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے آٹھویں ویٹ بورڈ کے اجلاس کی صدارت کی جس میں ملک میں گندم کی طلب و رسد کی صورتحال اور رابی سیزن 2025-26 کے لیے اہم زرعی اجناس کی دستیابی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں گندم کی دستیابی 33.47 ملین میٹرک ٹن ہے جبکہ قومی ضرورت 33.58 ملین میٹرک ٹن ہے، یوں صرف 0.11 ملین میٹرک ٹن کا معمولی فرق سامنے آتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ کمی نہایت معمولی ہے اور ملک میں گندم کے ذخائر کے حوالے سے کسی قسم کی تشویش کی ضرورت نہیں۔ وزیر نے یہ بھی دوٹوک اعلان کیا کہ موجودہ حالات میں پاکستان گندم درآمد نہیں کرے گا کیونکہ موجودہ ذخائر ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح مقامی کسانوں کے مفادات کا تحفظ ہے، نہ کہ منڈیوں یا بیوپاریوں کا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یوریا اور دیگر زرعی اجناس کی وافر فراہمی آئندہ رابی سیزن کے لیے یقینی بنا دی گئی ہے تاکہ کاشتکاروں کو بیج بونے میں کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔ مزید برآں انہوں نے اطمینان دلایا کہ عالمی سطح پر کھادوں کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود حکومت نے ملک میں کھادوں کی قیمتوں کو سختی سے کنٹرول میں رکھا ہے تاکہ پیداوار کی لاگت کسانوں کی دسترس میں رہے۔
رانا تنویر حسین نے متنبہ کیا کہ صوبائی سطح پر کسی بھی قسم کی کڑی اور غیر ضروری پالیسی سازی، بالخصوص پنجاب میں، منڈی میں خوف و ہراس پھیلانے اور صورتحال کو بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں، جس کے باعث بعض اوقات قومی سطح پر زرعی پالیسیوں کے نفاذ میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین بہتر ہم آہنگی پر زور دیا تاکہ پالیسیوں کا مؤثر نفاذ یقینی بنایا جا سکے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ملک میں پائیدار غذائی تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ فی ایکڑ گندم کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور کاشتکاری کی لاگت کم کی جائے، جس کے لیے جدید ٹیکنالوجی، اجناس کے مؤثر استعمال اور کسانوں کی معاونت ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں وقتی اقدامات کے بجائے پائیدار حل پر توجہ دینی ہوگی تاکہ کسانوں کو بااختیار بنا کر گندم کی پیداوار میں خودکفالت حاصل کی جا سکے۔