پاکستان کا سلامتی کونسل سے مطالبہ: غزہ میں نسل کشی اور قتلِ عام روکنے کے لیے فوری اقدام کیا جائے، بصورتِ دیگر سنگین نتائج برآمد ہوں گے

3

اقوامِ متحدہ، 28 اگست (اے پی پی): پاکستان نے کہا ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت، بے دخلی، قحط، آباد کاری اور رہائش کے قابل زمین کی تباہی ہے، یہ سب مل کر کسی ابہام کے بغیر ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کھلے عام نسل کشی کر رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ، بشمول مسئلہ فلسطین پر سلامتی کونسل کی بریفنگ کے دوران ایک بیان دیتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ سلامتی کونسل تماشائی نہ بنے۔ ہر لمحہ کی بے عملی دکھ کو بڑھاتی ہے،غم کو گہرا کرتی ہے اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی ڈھانچے کو چاک کر دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے،تاریخ تاخیر کو معاف نہیں کرے گی،بے عملی کو فراموش نہیں کرے گی۔ اس کونسل کو اپنے چارٹر کے مطابق اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور اقدام کرنا ہوگا۔

سفیر عاصم نے کہا کہ اسرائیلی قابض افواج نے جان بوجھ کر اور منظم انداز میں شہری زندگی کو تہس نہس کر دیا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسرائیل کا اپنا فوجی ڈیٹا بھی تسلیم کرتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 83 فیصد عام شہری ہیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے کبھی جائز یا قابلِ دفاع ہو سکتا ہے؟ یہ محض ضمنی نقصان نہیں، یہ اجتماعی قتل و غارت ہے

انہوں نے کہا کہ غزہ میں یہ ناقابلِ برداشت المیہ اب تک 691 دن سے جاری ہے۔ اس دوران اسرائیل نے بین الاقوامی قانون اور انسانی ہمدردی کے قانون کے ہر اصول کو سنگدلانہ بے رحمی کے ساتھ پامال کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 62,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 19,000 بچے، 10,000 عورتیں، کم از کم 270 صحافی اور 360 سے زائد اقوامِ متحدہ کے امدادی کارکن شامل ہیں۔

انہوں نے کہا  کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو اسرائیل کو ڈھال فراہم کرتے ہیں اور اس کونسل کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اور کیا ہے سوائے شراکتِ جرم کے؟ درحقیقت، اسرائیل کے لیے سزا سے استثنا ایک ڈھال بن چکا ہے—اور اس کونسل کی خاموشی اس کا سہارا ہے۔ قابض طاقت کے حامیوں کو خود احتسابی کرنی چاہیے اور اپنی پالیسیوں کے نتائج کو غیر جانب دارانہ طور پر دیکھنا چاہیے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ جیسے بم کافی نہ تھے، اب بھوک کو ہلاکت خیز ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے آئی پی سی کی تازہ رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق غزہ شہر میں قحط موجود ہے، جو پانچ لاکھ سے زائد افراد کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ  شہریوں کو بھوک سے مارنا جنگی جرم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔

سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کی نام نہاد “فوجی کارروائی” اور غزہ شہر پر مکمل قبضے کے منصوبے کی مذمت کرتا ہے، جو مزید انسانی المیہ برپا کرنے کا نقشہ ہے اور جس کے نتیجے میں مزید دس لاکھ افراد بے گھر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا E-1 سیٹلمنٹ پلان دو ریاستی حل کو دفن کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ پاکستان نے اس کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ واضح طور پر بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:

اوّل: غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ؛

دوم: انسانی امداد کی فراہمی پر تمام پابندیوں کا فوری اور غیر مشروط خاتمہ، اور اس کی محفوظ و بلا رکاوٹ تقسیم کو یقینی بنانا؛

سوم: تمام یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ؛

چہارم: اسرائیل کے غزہ شہر پر قبضے کے اعلان کردہ ارادے کا خاتمہ؛

پنجم: جبری بے دخلی، غیر قانونی آباد کاری اور بیت المقدس سمیت مغربی کنارے کے انضمام کا خاتمہ۔

سفیر عاصم نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے اعلیٰ حکام پر تنقید اور دباؤ ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، نہ ہی عالمی عدالتِ انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں کو رد کرنے یا میڈیا کو خاموش کرنے سے۔ انہوں نے کہا کہ امن اسی وقت قائم ہوگا جب حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی نے 25 اگست کو وزرائے خارجہ کی 21ویں غیر معمولی اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی ہے جو اخلاقی وضاحت کے ساتھ بات کرتی ہے۔ اس نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ باب ہفتم کے تحت فوری کارروائی کرے تاکہ اسرائیلی جارحیت اور خلاف ورزیاں روکی جا سکیں جو نہ صرف پائیدار امن کے امکانات کو تباہ کر رہی ہیں بلکہ دو ریاستی حل کے نفاذ میں بھی رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس قرارداد نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو تمام جرائم اور خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرائے جو واضح طور پر بین الاقوامی قانون اور انسانی ہمدردی کے قانون کی خلاف ورزی ہیں۔

پاکستانی مستقل مندوب نے کہا کہ فلسطینی مسئلے کے پرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ پر گزشتہ ماہ نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس کی زیرِ صدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی کانفرنس ایک بروقت اقدام تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کی مرضی کی عکاسی کرتا ہے جس کا احترام ہونا چاہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کانفرنس کے بعد ٹھوس اور مربوط بین الاقوامی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ بالآخر مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔