اقوامِ متحدہ، 20 اگست (اے پی پی ): پاکستان نے جنسی تشدد کو جنگ کا ہتھیار اور غیر قانونی قبضے کو مستحکم کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ فلسطین اور بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں خواتین کی حالتِ زار کی جانب مبذول کرائی ہے، جہاں کمیونٹیز کو ذلیل و رسوا کرنے اور سزا دینے کے لیے جنسی تشدد استعمال کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سالانہ مباحثے برائے “تنازعات سے متعلق جنسی تشدد” میں قومی بیان دیتے ہوئے پاکستان کے مستقل نمائندہ برائے اقوام متحدہ، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ غیر ملکی قبضے کی صورتحال، جیسا کہ IIOJK اور فلسطین میں ہے، ان مسائل کی شدت اور سنگینی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ منظم جبر و استحصال کی پوری حقیقت شفافیت کی کمی، رسائی کی پابندیوں، رپورٹنگ کی رکاوٹوں اور قابض افواج کو تحفظ دینے والے قوانین کی وجہ سے چھپی رہتی ہے، جو ایسے حالات میں احتساب کو ناممکن بناتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایسے واقعات کو بین الاقوامی جانچ سے نہیں بچنا چاہیے۔ یہ سلامتی کونسل اور سیکرٹری جنرل کے نمائندہ خصوصی کے دفتر کی فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔سفیر عاصم نے کہا کہ ایسے سنگین مظالم کی ایک نمایاں مثال مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہے، جہاں لاکھوں افراد قابض طاقت اسرائیل کے ہاتھوں تشدد، جبری بے دخلی اور بھوک کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ فلسطین میں اقوام متحدہ کے مبصرین کو محدود رسائی حاصل ہے، لیکن سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں ریپ، جنسی تشدد، طویل جبری برہنگی اور بار بار کی تذلیل آمیز تلاشیوں جیسے واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے غیر قانونی زیرتسلط جموں و کشمیر ( IIOJK )میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دستاویزی شواہد موجود ہیں کہ بھارتی قابض افواج ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں، خاص طور پر ان خواتین کو نشانہ بنانے کے لیے جو حقِ خودارادیت کا مطالبہ کرتی ہیں یا اس جدوجہد کی حمایت کرتی ہیں جو سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں انہیں دیے گئے ناقابل تنسیخ حق کے لیے جاری ہے۔
انہوں نے 2018 اور 2019 کی اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹس کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے شواہد کا حوالہ دیا اور کہا کہ برسوں سے اس تشدد اور ظلم کی تصدیق کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف 2019 سے 2021 کے درمیان بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں قریباً 10 ہزار خواتین اور لڑکیاں لاپتہ ہو چکی ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہم نمائندہ خصوصی سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اس صورتحال پر خصوصی توجہ دی جائے۔ پاکستان نے اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لیے جامع حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ، امن کے عمل میں خواتین کی شمولیت کو بڑھائے، اس اعتراف کے ساتھ کہ تنازعے کی صورتحال میں خواتین اور بچیوں کی ضروریات کو سمجھنے میں ان کا کردار بنیادی ہے۔مزید یہ کہ متاثرین کو بااختیار بنانے، ان کی عزت و وقار اور حقوق بحال کرنے کے لیے survivor-centered حکمتِ عملی اپنائے۔کہا گیا کہ غیر ملکی قبضے کے تحت ہونے والے جنسی تشدد پر خصوصی توجہ دے، جہاں جرائم اکثر چھپائے جاتے ہیں، رپورٹ نہیں ہوتے اور سزا سے مستثنیٰ رہتے ہیں۔اس کے علاوہ احتساب کو یقینی بنائے اور مجرموں کو استثنیٰ کا خاتمہ کرے اور حل طلب تنازعات کو سلجھائے تاکہ تشدد اور انسانی مصائب کے چکر توڑے جا سکیں۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اگرچہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ کئی تنازعات میں جنسی تشدد کی شدت اور بربریت کو نمایاں کرتی ہے، لیکن رپورٹ کے مطابق خود اس میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ یہ واقعات ان جرائم کے عالمی پھیلاؤ اور حجم کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ دنیا کے سب سے کمزور طبقات کو مسلح تنازعات کے اثرات سے بچانے کی کوششوں میں پیش پیش رہا ہے اور ہمارے امن فوجی، جن میں خواتین بلیو ہیلمٹس بھی شامل ہیں، دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں شہریوں کے تحفظ اور اقوام متحدہ کی اقدار کے دفاع میں اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہیں۔