نیویارک، 27 ستمبر (اے پی پی): وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نسل پرستانہ، متکبرانہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں، دنیا مسلسل 55 روز سے کرفیو، 80 لاکھ کشمیری بچوں، عورتوں اور افراد کو محصور کرنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کیخلاف آواز کیوں بلند نہیں کر رہی،دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ سوا ارب لوگوں کی مارکیٹ کو دیکھیں گے یا کشمیر میں ظلم، بنیادی حقوق سلب کئے جانے اور ریاستی جبر کیخلاف کھڑے ہو نگے۔
جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل سمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کرفیو کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے مابین خونیں تصادم کا خطرہ ہے، بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنا ہو گی، کرفیو اٹھانا ہوگا اور اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دلانا ہوگا، اگر ہمارے اوپر جارحیت مسلط ہوئی تو ہم سرنڈر کرنے کی بجائے اس کا مقابلہ کریں گے اور اس کیخلاف آخری دم تک لڑیں گے، دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس دنیا میں کوئی ریڈیکل اسلام نہیں بلکہ صرف ایک اسلام ہے اور وہ حضرت محمد ۖ کا اسلام ہے، جو امن مساوات، انصاف اور برداشت کا مذہب ہے، مغرب میں پیغمبر اسلام ۖ کی شان میں گستاخیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس کیخلاف مسلمانوں کے رد عمل پر انہیں انتہا پسند سمجھا جاتا ہے، اسلامو فوبیا کا تصور مغرب کا اپنا پیدا کرتا ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کو کیسے انتہا پسند اور دہشت گرد کہا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکی اور مغربی ممالک نے فنڈنگ کی اور پاکستان نے تربیت دی جس کے بعد افغانستان کے لوگوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور اسے جہاد کا نام دیا گیا۔ جب سوویت یونین کے افغانستان سے جانے اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف افغانوں نے جنگ لڑی تو اسے دہشتگردی کا نام دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک سے حکمرانوں ، طاقتور طبقے اور اشرافیہ کی کرپشن کی رقوم ترقی یافتہ ملکوں میں منی لانڈرنگ کے ذریعے جاتی ہیں وہ وہاں مہنگی جائیدادیں خریدتے ہیں اور بنک اکائونٹس میں پیسے رکھتے ہیں اور جب ترقی پذیر ممالک کرپشن کا پیسہ واپس لینے کے لئے کوشش کرتے ہیں تو انہیں مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مہنگے وکلاء کے ذریعے کیس لڑنے پڑتے ہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار کا پیسہ رکھنے اور اس کے ذریعے جائیدادیں بنانے کے خلاف ترقی یافتہ اور امیر ممالک کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان ممالک کو یہ رقوم واپس کرنا ہوں گی جہاں سے یہ لوٹی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کا ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں میں حصہ انتہائی کم ہے اور وہ اس کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثرات کے خاتمہ کے لئے ان ترقی یافتہ اور امیر ممالک کو’ جو اس کے پھیلانے کے ذمہ دار ہیں، اس پر قابو پانے کے لئے انہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا اور مناسب فنڈز فراہم کرنا ہونگے۔
وی این ایس، اسلا م آباد