اسلام آباد ۔ 2 مارچ (اے پی پی): وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے نوجوان ہیں اور نوجوان آبادی کا فائدہ تب ہو گا جب ہم انہیں تعلیم اور ہنر دینگے، مدینہ کی ریاست ہمارے لئے رول ماڈل ہے جس کی بنیاد پر ایک ایسی عظیم تہذیب کی بنیاد پڑی جس نے 700 سال تک دنیا کی قیادت کی، معاشرے کے کمزور طبقات کو آگے لیجانا ہماری اولین ترجیح ہے، غریب اور مستحق طلباءو طالبات کووظائف کا اجراءریاست مدینہ کے ماڈل کا تسلسل ہے، احساس کے تحت تمام سکیمیں میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر آگے بڑھائے جا رہے ہیں اس میں سیاسی عمل دخل نہیں ہو گا، احساس انڈر گریجویٹ سکالر شپ پروگرام سے پاکستان کا بہترین ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔ پیر کو یہاں احساس انڈر گریجویٹ سکالر شپ پروگرام کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے سکالر شپ پروگرام شروع کرنے پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو مبارکباد دی اور کہا کہ ملکی تاریخ میں طلباءو طالبات کووظائف دینے کا یہ اب تک کا سب سے بڑا پروگرام ہے جس سے انہیں دلی خوشی ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سکالر شپ احساس پروگرام کا حصہ ہے، احساس پروگرام ریاست مدینہ کی پیروی میں شروع کیا گیا ہے۔ آج وظائف لینے والے طلباءوطالبات کو یہ چیز سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ مدینہ کی ریاست ہمارے لئے رول ماڈل ہے جس کی بنیاد پر ایک ایسی عظیم تہذیب کی بنیاد پڑی جس نے 700 سال تک دنیا کی قیادت کی۔ انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام نے ریاست مدینہ کی شکل میں ہمیں یہ تعلیم دی کہ معاشرے کے کمزور طبقات کا خیال رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہی انسانی معاشرے کی خوبی ہوتی ہے، انسانی معاشرہ اپنے پیچھے رہ جانے والے طبقے کو آگے لاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہذب ممالک کی پہچان یہ نہیں کہ وہاں کے امیر لوگ کیسے رہتے ہیں بلکہ مہذب ہونے کی پہچان یہ ہے کہ وہاں کے غریب اور کمزور طبقات کیسے گزر بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طاقتور کی بالادستی والا معاشرہ انسانی معاشرہ نہیں ہوتا، ریاست مدینہ نے اپنے کمزور طبقے کا احساس ایک ایسے وقت میں کیا جب نہ ان کے پاس وسائل تھے اور نہ ہی پیسے تاہم ریاست کا ارادہ مصمم تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غریب اور مستحق طلباءو طالبات کووظائف کا اجراءریاست مدینہ کے ماڈل کا تسلسل ہے، بدقسمتی سے ماضی میں وسائل پر ایک چھوٹے طبقے کا قبضہ تھا یہ ایسا طبقہ تھا جن کے پاس سہولیات تھیں، عام لوگوں کیلئے ایک الگ نظام تھا، عام لوگ اس نظام میں آگے بڑھنے کیلئے رکاوٹوں کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ان کا نہیں بلکہ پاکستان کا اصل نظریہ ہے کہ معاشرے کے پیچھے رہ جانے والے طبقات کو آگے لایا جائے۔ ہمارے وہ نوجوان جن میں پڑھنے، ہنر سیکھنے اور آگے بڑھنے کی لگن ہے لیکن جن کے پاس وسائل نہیں ہیں ایسے نوجوانوں کیلئے یہ ایک زبردست پروگرام ہے اور جیسے جیسے ہمارے پاس وسائل بڑھتے جائیں گے، وظائف کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن طارق بنوری کو یقین دہانی کرائی کہ ایچ ای سی اور وظائف کیلئے فنڈز میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میانوالی میں نمل یونیورسٹی بنانے کا مقصد علاقے میں بیروزگاری کا خاتمہ تھا، ہم وہاں پر تکنیکی تعلیم کی یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے، اس ادارے کا پھر بریڈفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کیا گیا، نمل میں 75 فیصد طلباءاردو میڈیم سکولوں سے پڑھ کر آتے ہیں جنہیں پہلے انگریزی کا بنیادی کورس کرانا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود 50 فیصد سے زیادہ طلباءفرسٹ ڈویژن لیتے ہیں، یہ ہمارے لئے ایک واضح مثال ہے کہ جن بچوں میں لگن ہو اور وہ آگے بڑھنا چاہتے ہوں انہیں اگر وسائل فراہم کئے جائیں تو وہ ایچی سن اور اس طرح کے دیگر تعلیمی اداروں کے طلباءسے کہیں زیادہ آگے بڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وظائف حاصل کرنے والے طلباءاس کی قدر کریں، اللہ نے انہیں آگے بڑھنے کا موقع دیا ہے مجھے پوری امید ہے کہ طلباءاس سے بھرپور استفادہ کریں گے اور اپنے آپ، اپنے خاندانوں اور ملک کو آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوجوانوں کو تعلیم و تربیت کے جو پروگرام شروع کئے گئے ہیں اس کے انشاءاللہ بہترین نتائج سامنے آئیں گے، ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد طلباءکو ہنر سکھایا جا رہا ہے، یہ نوجوان آنے والے سالوں میں پاکستان کو آگے لے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سونا، چاندی، تانبہ اور کوئلہ سمیت معدنی وسائل موجود ہیں، یہاں 12 موسم ہیں، یہاں تیل اور گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں لیکن ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے نوجوان ہیں اور نوجوان آبادی کا فائدہ تب ہو گا جب ہم انہیں تعلیم اور ہنر دینگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت سماجی تحفظ کے جامع منصوبے شروع کئے گئے ہیں اس وقت پنجاب میں 7 لاکھ سے زائد خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ جاری ہو چکے ہیں، خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام غریب خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے، ہیلتھ کارڈ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ پیچیدہ امراض کی صورت میں غریب خاندانوں کے پاس علاج کیلئے اپنے اثاثے بیچنے کا علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا، اسی سوچ کے تحت ہم نے کینسر ہسپتال بنایا، ہیلتھ کارڈ کے ذریعے اب غریب خاندانوں کو بیماری کی صورت میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں اب تک 170 پناہ گاہیں تعمیر ہو چکی ہیں اس کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ پناہ گاہیں ان لوگوں کیلئے ایک بڑی سہولت ہے جو مزدوری کیلئے شہروں میں آتے ہیں اور چھت نہ ملنے کی وجہ سے وہ سڑکوں کے کنارے بھوکے سوتے رہتے۔ پناہ گاہوں کے قیام سے انہیں چھت کے ساتھ ساتھ کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی بھی ہماری اولین ترجیح ہے، غریب لوگوں کیلئے قانونی امداد کا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے اس پروگرام کے تحت انہیں وکیل کی خدمات حاصل کرنے کیلئے مدد فراہم کی جائے گی۔ حکومت ایسے لوگوں کو مفت انصاف دینا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی خواتین کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے کئی پروگرام شروع کئے گئے، ناقص غذائیت پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے، ناقص غذائیت کی وجہ سے بچوں کی صحیح نشوونما نہیں ہوتی، حکومت دیہی خواتین کو بااختیار بنانا چاہتی ہے، دیہی خواتین کیلئے جو پروگرام شروع کئے گئے ہیں اس کے تحت خواتین کو نہ صرف آمدنی ہو گی بلکہ انہیں غذائی ضروریات پورا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سماجی تحفظ کے جامع پروگرام احساس کے تحت تمام سکیمیں میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر آگے بڑھائی جا رہی ہیں اس میں سیاسی عمل دخل نہیں ہو گا۔ وزیراعظم نے وظائف حاصل کرنے والے طلباءکو مبارکباد دی اور کہا کہ اس سے پاکستان کا بہترین ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود نے کہا کہ انڈر گریجویٹ طلباءکیلئے سکالرشپس کا اتنا بڑا پروگرام کبھی شروع نہیں کیا گیا، اب غریب اور مستحق طلباءوسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ 70 ہزار طلباءکو ہنر کی تربیت دے رہے ہیں، یہ ملک میں نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غریب طلباءکی مالی مشکلات دور کرنے کیلئے حکومت پرعزم ہے، حکومت دیانتداری سے کام کرے تو وہ کچھ ہوتا ہے جو آج کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کفالت پروگرام سے 50 لاکھ مستحق خواتین مستفید ہو رہی ہیں جبکہ احساس انڈر گریجویٹ سکالر شپ پروگرام سے 4 سال میں 2 لاکھ انڈرگریجویٹ طلباءمستفید ہوں گے، پروگرام کے تحت 50 فیصد وظائف طالبات کو دیئے جائیں گے جبکہ خصوصی طلباءکیلئے دو فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم آمدن خاندانوں کے 50 ہزار طلباءکو ہر سال وظائف دیئے جائیں گے اور 45 ہزار آمدن والے خاندان سکالرشپ کیلئے اہل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وظائف پروگرام سمیت احساس پروگرام کے تمام سکیموں میں میرٹ اور شفافیت کو اولیت دی گئی ہے، یہ ایک مشکل کام تھا لیکن اتنے سخت فیصلے کرنے میں ہمیں وزیراعظم پاکستان کا تعاون حاصل تھا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2019-20ءکیلئے وظائف کا پراسیس ختم ہو چکا ہے، وظائف دینے کا عمل 31 مارچ تک مکمل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال کیلئے درخواستوں کی وصولی جون سے شروع ہو گی۔ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے وظائف حاصل کرنے والے طلباءو طالبات میں وظائف کے لیٹر تقسیم کئے۔ واضح رہے کہ 24 ارب روپے کی لاگت سے سالانہ 50ہزار سکالر شپ دینے کا پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے احساس انڈرگریجویٹ اسکالرشپ پروگرام کا آغاز پیر سے ہو گیا، 50فیصد سکالر شپ طالبات کے لئے مختص کی گئی ہیں، ایچ ای سی سے الحاق شدہ 119سرکاری یونیورسٹیوں میں انڈرگریجویٹ پروگراموں میں زیرِتعلیم وہ تمام طالب علم جن کی خاندانی آمدن 45ہزار روپے ماہانہ سے کم ہے درخواست دینے کی اہل ہیں، پورے ملک بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اسکالرشپ کے لیے طلباءکا انتخاب 31 مارچ 2020تک مکمل ہو جائے گا۔ احساس انڈرگریجویٹ اسکالرشپ اقدام کا باضابطہ اجراءوزیر اعظم عمران خان نے 4نومبر2019ءکو کیا۔ اس پروگرام کے تحت، ہر سال کم آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 50ہزار طلباءکو چار اور پانچ سالہ انڈر گریجویٹ پروگراموں میںِ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپس دئیے جائیں گے۔آئندہ 4 سالوں میں2لاکھ انڈر گریجویٹ اسکالرشپس ضرورت اور میرٹ کی بنیاد پر دئیے جائیں گے۔ 50 فےصد سکالرشپس خواتین طلباءکے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ دو فیصد اسکالرشپس خصوصی ضرورتوں کے حامل (جسمانی طور پر معذور) طلبا ءکو دی گی ہیں۔ اس 4 سالہ پروگرام پر عملدرآمد کیلئے کل24ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت دئیے جانے والے اسکالرشپ میں 100 فیصدٹیوشن فیس کے ساتھ 4 ہزار روپے ماہانہ گزر بسر کا وظیفہ بھی شامل ہے۔ اس پروگرام کادائرہ کار چاروں صوبوں بشمول انضمام شدہ علاقوں اور گلگت بلتستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اسکالرشپ ،طالب علم کی اطمینان بخش تعلیمی کارکردگی سے مشروط ہوگا، اسکالرشپ وصول کنندگان کو انڈرگریجویٹ پروگرام مکمل ہونے تک وظیفہ ملتا رہے گا۔ سکالر شپ کےلئے انتخاب طالب علم کے جی پی اے اور خاندانی آمدن پر مبنی میرٹ اور ضرورت کی بنیاد پر ہوگا۔ درخواستیںehsaas.hec.gov.pk/hec-portal-web/auth/register.jsf ایچ ای سی کے پورٹل کے ذریعے آن لائن جمع کروائی جاسکتیں ہےں۔یونیورسٹی کی ایوارڈ کمیٹی، ایچ ای سی ٹیم کی معاونت کے ساتھ درخواست گزاروں کی فیملی آمدن اور جی پی اےکی تصدیق کرتی ہے۔ حتمی ایوارڈ فہرستیں ہر یونیورسٹی میں آویزاں کی جائیں گی ،جو ایچ ای سی اور یونیورسٹی کی ویب سائٹس پر بھی دستیاب ہونگی۔ منتخب ہونے والے طالب علموں کو اپنے بنک اکاﺅنٹ کھولنے ہونگے تاکہ گزربسر کا وظیفہ براہ راست ان کے اکاﺅنٹ میں جمع کروایا جا سکے۔ سال 2019-20ءکےلئے طالبعلموں نے ایچ ای سی کے آن لائن پورٹل پر درخواستیں جمع کروائیں۔ درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ 24دسمبر، 2019ءتھی۔ تعلیمی سال 2019-20ءکےلئے ایک لاکھ 32 ہزار 889 انڈرگریجویٹ طلباءو طالبات نے وظائف کےلئے درخواست دی۔ پورے ملک بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اسکالرشپ کےلئے طلباءکا انتخاب 31 مارچ 2020ءتک مکمل ہو جائے گا۔ سال 2019-20ءمیں سکالرشپ حاصل کرنے والے طالبعلموں کے وظائف اگلے سال کے لیے بھی جاری کر دئیے جائیں گے بشرط کہ وہ اپنا جی پی اے اسکور برقرار رکھیں۔ پبلک سیکٹریونیورسٹیوں کے ڈگری پروگراموں میں داخلے کے خواہشمند مستحق طالب علموں سے نئی درخواستیں جون 2020ءمیںوصول جائیں گی۔ طالبعلم ایچ ای سی کے آن لائن پورٹل پر درخواستیں جمع کروائیں گے۔ طالبعلم اپنی درخواست میں اس یونیورسٹی کا نام بھی لکھیں گے جہاں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔ وہ طالبعلم جن کے دسمبر۔جنوری میں بہار سمسٹر 2020 ءکےلئے داخلے ہوئے ہیں، درخواست دینے کے اہل ہیں۔ اسکالرشپ کا اعلان یونیورسٹی داخلوں کی حتمی فہرستوں کے اعلان کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن احساس انڈر گریجویٹ اسکالرشپ پروگرام پر عمل درآمد کا ادارہ ہے۔ یہ بی آئی ایس پی اور ایچ ای سی کا مشترکہ اقدام ہے۔ یہ پروگرام پورے ملک بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی ایچ ای سی کے ذریعہ تسلیم شدہ سرکاری شعبے کی 119 یونیورسٹیوں میں چار سے پانچ سالہ انڈرگریجویٹ پروگراموں میں زیر تعلیم کم آمدنی والے پس منظر کے طلباءکو مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔ طالب علم کی تعلیمی کارکردگی کی نگرانی کی جائے گی اور تسلی بخش کارکردگی کی صورت میں اسکالرشپ وصول کنندگان کو انڈرگریجویٹ پروگرام مکمل ہونے تک وظیفہ ملنا جاری رہے گا۔ ٹیوشن فیس براہ راست یونیورسٹیوں کو دی جائے گی جبکہ گزربسر کا وظیفہ براہ راست طالب علموں کے اکاو ¿ نٹ میں جمع کروایا جائے گا۔ احساس انڈر گرےجوےٹ اسکالرشپ پروگرام دوسرے اسکالرشپ پروگراموں سے کس طرح مختلف ہے؟ یہ پروگرام حکومت کی اسکالرشپ پالیسی میں تین نئی جہتوں کا عکاس ہے۔ پہلی احساس اسکالرشپ پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ضرورت پر مبنی انڈر گریجویٹ اسکالر شپ پروگرام ہے۔جو کم آمدنی والے خاندانوں کے ہونہارطلبا ءکے کیے شروع کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بہت کم اسکالرشپ ضرورت کی بنیاد پر دیئے جاتے تھے۔ دوسری یہ سب سے بڑا قومی اسکالرشپ پروگرام ہے۔ گزشتہ 14سالوں میں، ایچ ای سی نے مجموعی طور پر 30,000انڈر گریجویٹ اسکالرشپس دی ہیں، جبکہ یہ اسکیم ہر سال 50,000اسکالر شپس دے گی۔اس اقدام سے تعلیم کے فروغ کی جانب حکومتی عزم ظاہر ہوتا ہے۔تیسری یہ اسکالرشپ پروگرام طالب علموں کے تعلیمی کیرئیر کی تشکیل میں معاون ثابت ہو گا۔ ماضی میں پوسٹ گریجویٹ پروگراموں کیلئے اسکالرشپس پرتوجہ مرکوز کی گئی تھی، لیکن احساس نے پاکستان کے تعلیمی شعبے میں اہم تبدیلی لاتے ہوئے 4-5سالہ انڈرگریجویٹ اسکالرشپ پروگراموںپر زور دیا ہے۔جو کم آمدن والے خاندانوں کے ذہین نوجوانوں کو غربت سے نکلنے میں مدد فراہم کرے گا۔ پروگرام کا ٹریکنگ نظام کیا ہے؟ یہ پروگرام احساس اسکالرشپ اسٹیئرنگ کمیٹی کی زیرِ نگرانی کام کر رہا ہے جس کی صدارت وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ و تخفیفِ غربت، ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور چیئرمین ایچ ای سی ، طارق بنوری کرتے ہیں۔ اس مشترکہ پروگرام کے لیے،ایک جوائنٹ نگرانی اور جائزہ فریم ورک تشکیل دیا گیا ہے جو پروگرام کوشفاف ، مساویانہ اورمنصافانہ انداز میں کام کرنے کو یقینی بنانا ہے۔
وی این ا یس، اسلام آباد