سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مکانات و  تعمیرات کا اجلاس

137

اسلام آباد،12اکتوبر  (اے پی پی):ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے مکانات اور تعمیرات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجزمیں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے سوال برائے اسلام آباد کے سیکٹر جی۔14 کے سیکٹرز 2 اور3 میں الاٹیوں کو پلاٹ دینے جبکہ سیکٹر 1 میں الاٹیوں کو قبضہ نہ دینے کے معاملہ، کورونا وبا کی وجہ سے حکومت کے ہائوسنگ منصوبہ اور فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی بننے کے بعد ادارے میں اصلاحات، وزارت ہاوسنگ اینڈ ورکس کے سالانہ بجٹ کا جائزہ لینے کیلئے مالی سال 2019-20کے مختص اور استعمال شدہ بجٹ اور مالی سال 2020-21ءکیلئے پی ایس ڈی پی کیلئے تجاویز کے علاوہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے مکمل اور التواءکا شکار منصوبہ جات کی تفصیلات کے علاوہ ایس ڈی جیز کے پروگرام اور پی ایس ڈی پی کے صوبہ وائز منصوبہ جات کی تفصیلات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

 سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے معاملے کے حوالے سے کمیٹی نے تفصیلی جائزہ لیا کمیٹی کو بتایا گیا کہ سیکٹر G-14/1 میں کچھ غیر قانونی قابضین مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ 30 جون 2020ءکو متعلقہ سیکٹر میں آپریشن کیا گیا تو غیر قانونی قابضین نے ہمارے ملازمین کو زدوکوب اور زخمی کیا اور گاڑیاں بھی توڑ دیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔سیکرٹری ہاو_¿سنگ اینڈ ورکس نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت کی سپورٹ کے بغیر غیر قانونی قابضین سے سیکٹر G-14/1 میں زمین واگزار کرانا ممکن نہیں ہے 150 پراپرٹیز کا ایوارڈ کر چکے ہیں اور 100کو پیمنٹ بھی کر دی ہے۔

 سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ متعلقہ سیکٹر میں 580 مقامی لوگ ہیں اور 1100کے قریب قبضہ مافیا ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے کوئی کام نہیں ہو رہا ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ متاثرین اور وزارت کے لوگ ایک کمیٹی بنا کر فیصلہ کریں بات چیت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ 60دنوں کے اندار متاثرین کو ادائیگی کی جائے اور پندرہ دنوں میں غیر قانونی قبضہ گروپوں سے زمین وگزار کرائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بے شمار الاٹی وفات پا چکے ہیں اور ان کے بچے اپنے حق کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اٹھارتی نے یہاں کوئی کام نہیں کیا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ معاملہ کافی عرصے سے کمیٹی اجلاس میں اٹھایا گیا ہے اگر وفاقی دارلحکومت میں قبضہ مافیا کا یہ حال ہے تو باقی ملک کا کیا ہو گا۔ جس پر سیکرٹری ہاوسنگ اینڈ ورکس نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ سیکرٹری داخلہ اور چیف کمشنر اسلام آباد سے میں میٹنگ کر کے کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں تفصیلات سے آگاہ کر دی گا کمیٹی نے آئندہ اجلاس تک معاملہ موخر کر دیا۔

 کمیٹی اجلاس میں کورونا وبا کی وجہ سے حکومت کے ہاوسنگ منصوبہ اور فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاوسنگ اتھارٹی بننے کے بعد ادارے میں اصلاحات کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ چار ماہ کے دوران ہاوسنگ منصوبے کے حوالے سے کوئی اتنا کام نہیں ہو سکا اگست 2020سے منصوبے اون گرونڈ شروع ہو چکے ہیں کمیٹی وزٹ بھی کر سکتی ہے۔ بارہ کہو، جی 13، لاہور، کچلاک، پشاور اور دیگر شہروں میں بھی تعمیرات شروع ہو چکی ہیں۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ دسمبر 2020تک پانچ سو ارب کے منصوبے شروع ہو چکے ہونگے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ان پانچ سو ارب کے منصوبوں میں پرانے منصوبوں کی تعداد 148جاری 213، 2020، میں 112 اور 2021 میں 184منصوبے شامل ہوں گے۔ پشاور کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کا بجٹ 125ارب کا ہو گا جس میں 15ہزار یونٹس بنے گے 8.5 ہزار کنال زمین صوبائی حکومت نے دی ہے کنسلٹنٹ ہائر ہو چکا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت کا نان ڈیویلپمنٹ بجٹ 4.47 ارب روپے مختص کیا گیا ڈویلپمنٹ بجٹ 2.6 ارب روپے کا تھا نئے منصوبہ جات شامل ہونے کی وجہ سے تقریباً 9ارب روپے کا ہو چکا ہے ان میں جاری منصوبہ جات کی تعداد 42 اور 29 نئے منصوبے شامل ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وہ پرانے منصوبہ جات جن پر 40 سے 60 فیصد کام ہو چکا تھا اور فنڈ کی کمی کی وجہ سے روکے ہوئے تھے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ا_±ن منصوبہ جات کو آئندہ بجٹ میں ترجیح دی جائے گی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ منسٹر انکلیو میں 12منصوبے تھے چھے بن چکے ہیں اور چھے پر گزشتہ تین سالوں سے کام روکا ہوا تھا ان کو آئندہ بجٹ میں مکمل کیا جائے گا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ بلوچستان کیلئے ایس ڈی جیز میں کوئی منصوبہ نہیں ہے قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ورکنگ پیپر کاتفصیلی جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں اس ایجنڈے پر مزید بحث کی جائے گی۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر ز لیفٹنٹ جرنل (ر) صلاح الدین ترمذی، بہرہ مند خان تنگی اور مولانا عبدالغفور حیدری کے علاوہ سیکرٹری وزارت ہاوسنگ اینڈ ورکس اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔