معذور افراد کو جدید ٹیکنالوجی کے ثمرات سے مستفید کرنے کیلئے تمام تر دستیاب وسائل کو بروئے کار لانا وقت کی اہم ضرورت ہے، ڈاکٹر عارف علوی

111

پشاور ۔8فروری  (اے پی پی):صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہاہے کہ معذور افراد کو جدید ٹیکنالوجی کے ثمرات سے مستفید کرنے کیلئے تمام تر دستیاب وسائل کو بروئے کار لانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گورنر ہائوس پشاور میں پیرکے روز ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او )کے تعاون سے منعقد ہ معذور افراد کے سیشن سے خطاب کے دوران کیا ۔انہوں نے کہاکہ معاون ٹیکنالوجی بین الااقومی اور علاقائی سطح پر اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے جوکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا بہتر ہوتی جارہی ہے اور معاون مصنوعات کے ضرورت مندوں کیلئے اب امید پیدا ہوگئی ہے ۔ وزیر اعظم  کےمعاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و ہائر ایجوکشن کامران بنگش بھی اس خصوصی سیشن میں موجود تھے ۔ صدر نے کہاکہ ہم اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ کویڈ 19 نے زندگی کے ہرشعبے کو متاثر کیا ہوا ہے ۔ پاکستانی عوام کی خیر خواہی اور صحت کیلئے ڈبلیو ایچ او کے تعاون کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ حکومت اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ کسی بھی قسم کی معذوری رکھنے والے افراد ملک کی ترقی میں بامقصد کردار ادا کرسکیں ۔ صدر نے کہاکہ 2030 ء ایجنڈا فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ کے فریم ورک میں یہ بات شامل ہے کہ معذور افراد ملک کی ترقی میں کسی سے کم نہ رہیں۔ انہوں نے کہاکہ سوشل پروٹیکشن پروگرام غربت میں کمی لانے ‘ صحت کی سہولتوں تک موثر رسائی’بحالی صحت اوردیگر خدمات کے حصول کیلئے اہم کردار اداکرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ معذور افرادکو مالی طورپر خود مختار بنانے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے حکومت ٹیکنکل ‘ ووکیشنل اور سکل بیسڈایجوکشن پر توجہ مرکوز کررہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم عمران خان پہلے ہی معذور افراد کیلئے ماہانہ دو ہزار روپے کے وظیفہ کا اعلان کرچکے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے ملک میں مختلف معذوریوں کے تقریباََ20 لاکھ افراد ہیں جن میں سے تین لاکھ 30 ہزار نادرا کے ساتھ رجسٹر ڈ ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ احساس سروے کے تحت غیر رجسٹرڈ معذور افراد کا ڈیٹا تیار کیا جارہاہے تاکہ آسان شرائط کے قرضوں کے ساتھ ان کی مدد کی جاسکے ۔ انہوں نے کہاکہ ہائر ایجوکشن کمیشن ایک پالیسی تیار کررہاہے جس کے تحت پوسٹ گریجویٹ کلاسوں میں پڑھنے والے معذور طلباء کو فیس سے مستثناء قرار دیا جائیگا جبکہ50 ہزار سے زائد ایسے طلباء کیلئے وظائف پہلے ہی سے مقرر کیے جاچکے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد مختلف قسم کی معذوریوں کے ساتھ رہ رہے ہیں جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 15 فیصد ہے جن میں سے ایک کروڑ 90 لاکھ (3.8فیصد)15 سال یا اس سے زائد ایسے افراد ہیں جوبمشکل معمولات زندگی ادا کرتے ہیں اور ان کو اکثر علاج معالجے کی ضرورت رہتی ہے ۔ مختلف وجوہات کی بناء پر معذوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ قبل ازیں صدر مملکت کو بتایا گیا کہ حال ہی میں ہیلتھ سروسز اکیڈیمی اور منسٹری آف نیشنل سروسز ریگولیشنز نے ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے ریپڈاسسٹیو ٹیکنالوجی اسسمنٹ ( آر اے ٹی اے) سروے مکمل کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کل آبادی کے 23.5فیصد افراد(تقریباََ چار میں سے ایک فرد)کو معمولات زندگی بجا لانے میں کچھ دقت جبکہ 8.5 فیصد کو بہت مشکل پیش آتی ہے ۔ سروے کے مطابق مذکورہ بالا 23.5 فیصد افراد میں سے 14.3 فیصد کو بصارت’ 12.4 فیصد کو چلنے پھرنے اورچڑھنے’ 5.9 فیصد کو خود کو سنبھالنے ‘ 4.8 فیصد کو یاد رہنے اور توجہ مرکوز کرنے ‘ 4.8 فیصد کو سننے اور 3.1 فیصد کو بولنے کی معذوریاں لاحق ہیں ۔ صدر مملکت کو معذوروں کیلئے نافذ کیے گئے ڈس ایبلڈ پرسنز ایمپلائمنٹ ری ہیبلٹیشن آرڈیننس 1981 ء ‘ زکواة اینڈ عشر آرڈیننس 1980 ء ‘ والنٹری سوشل ویلفیئر ایجنسیز رجسٹریشن اینڈ کنٹرول آرڈننس 1961’ چیئر یٹ ایبل انڈومنٹ ایکٹ 1890 ( (VIجیسے قوانین اورمعذور افراد کی بحالی اور مدد کیلئے کام کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے بھی آگاہ کیا گیا ۔