سکھر،31مارچ(اے پی پی): مائی بیگم فقیریانی کی 34ویں برسی کی تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی پہلے حصہ میں فقیر انی کی زندگی اور ان کی شخصیت کا مقالہ پیش کیا گیا اور دوسرے حصہ میں راگ اور موسیقی پر مشتمل تھا۔
سندھ کی صوفی گلوکار اور شاعرہ مائی بیگم فقیریانی کی برسی کی تقریب میں سینئر صحافی/قلم کار ممتاز بخاری اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مائی بیگم فقیرانی کی آواز میں ان کے ُسر میں اتنا درد بھرا ہوا تھا کہ جو بھی ان کا کلام سنتا تھا رو پڑتا تھا کہ لگتا تھا کہ ان کےاندر صدیوں کا درد چھپا ہوا ہو اور کسی نے اسے کھود کے نکالا ہو، مائی بیگم فقیریانی کے کلام میں لوگوں کو اپنی کہانیاں نظر آتی تھیں فقیرانی اپنی شاعری میں بھی لوگوں کے جذبوں کی عکاسی کرتی تھیں ان کے کلام میں روحانیت کا عکس نظر آتا تھا ۔
حضرت بیدل بیکس کے سجادہ نشین غلام جعفر قریشی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کے مائی بیگم فقیریانی بہت بڑی گائیکا اور شاعرہ تھی بیدل بیکس کے بہت سارے کلام انہوں نے بہت ہی عمدہ انداز میں پیش کیا وہ موسیقار ہی پیدا ہوئی تھی اور سندھ روہڑی شہر کی پہچان تھیں۔
پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ بیگم فقیرانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے نام کی طرح فقیرانہ طبیعت کی مالک تھی اور وہ اپنے راگ سے عشق کے ایسے مقام پر پہنچیں جہاں بہت کم لوگ پہنچتے ہیں، مائی بیگم فقیریانی کی یاد میں یہاں عرس منایا جا رہا ہے کیونکہ وہ سنگیت کی دیوی تھیں اور وہ ملح خاندان سے تھی انہوں نے اپنے خاندان کی پہچان بنائی،ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں وہ پڑھی لکھی نہیں تھیں پر ان کو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ہزاروں کلام یاد تھے بیگم فقیرانی سندھی کا فخرتھیں اور بہت سال تک ان کا نام زندہ رہے گا۔