کورونا کی وباءخطرناک صورت اختیار کر چکی ہے، ویکسینیشن کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا،چیئرمین  اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کا پریس کانفرنس سے خطاب

22

اسلام آباد۔26اپریل  (اے پی پی):اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ کورونا کی وباءخطرناک صورت اختیار کر چکی ہے، عوام ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں، ”گھر کا فرد، گھر کا امام“ کا تصور دیا تھا، تراویح مسنون عمل ہے، گھر پر ادا کی جا سکتی ہے، ویکسینیشن کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ پوری انسانیت گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے، ایک مرتبہ پھر پوری قوم علماءکرام اور منبر و محراب کی طرف دیکھ رہی ہے۔ گزشتہ سال بھی دینی طبقے نے کورونا احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بہت فعال قائدانہ کردار ادا کیا تھا، موجودہ حالات میں پہلے کی طرح قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، کچھ لوگ سوشل میڈیا پر ویکسی نیشن کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں، ضررت اس امر کی ہے کہ ایسی غلط فہمیوں کا تدارک کیا جائے۔ انہوں نے تمام شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ پروپیگنڈا کر کے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جید علماءکرام کورونا کی پچھلی لہر میں شرعی حوالے سے کچھ احتیاطی تدابیر پر متفق ہو گئے تھے، ان احتیاطی تدابیر کو دوبارہ روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلامی اعتقاد کے مطابق ہر وباءاللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور اسی کے حکم سے ختم ہوتی ہے، اس کا علاج یا اس سے بچائو کے لئے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نہ صرف شریعت کے خلاف نہیں بلکہ عین تقاضائے شریعت ہے۔ احتیاطی تدابیر میں یہ شامل ہے کہ جس علاقے میں وباءسے متاثرہ مریض موجود ہوں یا جہاں یہ وباءپھوٹ پڑی ہو اس علاقے میں جانے سے اجتناب کیا جائے اور وہاں کے افراد دوسرے علاقوں میں جانے سے اجتناب کریں۔ وباءسے متاثرہ مریض دیگر لوگوں میں گھلنے ملنے سے اجتناب کرے۔ انہوں نے بتایا کہ معمر افراد اور اسی طرح نزلہ، زکام اور کھانسی سے متاثرہ افراد گھروں میں نماز پڑھیں کیونکہ ان کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہے، اسی طرح وباءکے دنوں میں بچوں کو بھی مسجد میں نہ لایا جائے۔ علماءکرام و خطبائ، باجماعت نماز کو مختصر رکھیں، وبائی مرض کے پیش نظر اگر ضروری ہو تو اردو یا مقامی زبان کا بیان ترک کیا جا سکتا ہے جبکہ عربی خطبہ و نماز کو نہایت اختصار کے ساتھ ادا کیا جائے۔ تمام نمازی حضرات سنتیں گھروں میں ادا کرنے کے ساتھ وضو بھی گھر سے کر کے آئیں اور صفوں کے درمیان فاصلہ زیادہ رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ کورونا وائرس کی وباءکے پھیلائو کا خطرہ زیادہ ہو جس کے پیش نظر ماہرین طب اور ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق باہمی میل ملاپ سے بیماری پھیلنے کا ظن غالب ہو تو باجماعت نماز کو کم سے کم افراد تک محدود کر دیا جائے۔ د رباروں، زیارت گاہوں، امام بارگاہوں میں محافل اور عوامی جلسوں کو موقوف کر دیا جائے۔ شادی، بیاہ، سیاسی جلسے جلوس وغیرہ تمام وہ تقریبات جن میں افراد کا اجتماع ہوتا ہو، کو موقوف کر دیا جائے۔ ہاتھ ملانہ (مصافحہ) اور گلے ملنا (معانقہ) کی روایت فی الحال ترک کر دی جائے، صرف سلام پر اکتفاءکیا جائے کیونکہ اسلام میں زبان سے سلام کرنے کا ہی اصل حکم ہے۔ مصافحہ و معانقہ لازمی نہیں ہے بلکہ اگر حکومت کی طرف سے مصافحہ و معانقہ پر پابندی لگائی جائے تو اسے چھوڑنا واجب ہے۔ علاج معالجہ اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ رجوع الی اللہ اور توبہ استغفار بھی علاج ہی کی ایک نوعیت ہے، پوری قوم کو اس پر بھی عمل پیرا ہونا چاہئے۔ تراویح مسنون عمل ہے، گھروں پر ادا کی جا سکتی ہے، ختم قرآن کا انعقاد سادگی سے کیا جائے اور ہجوم بنانے سے اجتناب کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی لہر میں حساسیت تھی، ہمیں اس پر زور دینا چاہئے تاکہ یہ تحریک کی شکل اختیار کرلے، ہم سب کو، حکومت اور متعلقہ اداروں کو مل کر کوشش کرنی چاہئے تاکہ کورونا وباءکی تیسری خطرناک لہر سے قوم کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ترغیبی عمل کے ذریعے کسی قانون کی خلاف ورزی یا مخالفانہ پروپیگنڈے کو دور کر سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ”گھر کا مرد گھر کا امام“ تصور دیا تھا، ہماری تجویز ہے کہ تراویح ایک مسنون عمل ہے، اسے گھروں میں ادا کیا جا سکتا ہے، اگر کہیں تراویح پڑھی بھی جاتی ہے تو اس کا دورانیہ مختصر کر دیا جائے، چھوٹی سورتیں پڑھی جائیں۔