اسلام آباد،5مئی (اے پی پی):وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات شوکت ترین نے کہاہے کہ پاکستان کی حکومت اورآئی ایم ایف کے درمیان پروگرام جاری ہے، پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے نہیں نکلا ہے۔ تاہم ہم نے آئی ایم ایف سے بات کی ہے کہ ٹیرف اورٹیکسوں کی شرح میں یکدم اضافہ کی گنجائش نہیں ہے۔
بدھ کویہاں معاون خصوصی برائے محصولات ڈاکٹروقار مسعود اورسیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ موجودہ حکومت کوآغازمیں مشکل اقتصادی صورتحال کاسامنا تھا،زرمبادلہ کے ذخائرکم ہوگئے تھے،حسابات جاریہ کاخسارہ 20ار ب ڈالرسے تجاوزکرگیاتھا،حکومت نے دوست ممالک سے اقتصادی معاونت کیلئے رابطہ کیاتاہم جتنی معاونت کی امیدتھی اس کے مطابق معاونت حاصل نہیں ہوئی ایسے حالات میں جب آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ماحول ماضی کے نسبت میں مشکل تھا۔ 2008 میں جب ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو دہشت گردی کیخلاف جنگ کی وجہ سے دنیا ہماری ساتھ تھی اسلئے پاکستان پرزیادہ شرائط عائد نہیں کئے گئے۔موجودہ حکومت جن حالات اورماحول میں آئی ایم ایف کے پاس گئی ہے اسے دوستانہ قرارنہیں دیا جاسکتا،آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے جو شرائط عائد کی گئی تھیں ان کاسیاسی نقصان ہوسکتاتھاتاہم حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق اقدامات کئے اورمعیشت استحکام کی جانب گامزن ہوگئی۔حسابات جاریہ کے خسارہ میں کمی آئی، برآمدات اورترسیلات زرمیں اضافہ ہونے لگا، بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں بڑھوتری ہوئی اس دوران کوویڈ 19 کی وبا آئی جس سے یہ اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔کوویڈ 19 کے عرصہ میں بھی حکومت نے 1240 ارب روپے سے زائد کامالیاتی امدادی پیکج جاری کیا جس پرحکومت کوکریڈٹ ملنا چاہئیے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں ریکارڈاضافہ دیکھنے میں آیاہے،محصولات اکھٹاکرنے کی شرح میں مارچ میں نیٹ بنیادوں پر40 فیصداضافہ ہوا جوپچھلے سال منفی چھ فیصدتھا، 20 اپریل تک ریونیومیں بڑھوتری کی شرح 92 فیصد تھی تاہم ایک بار کوویڈ کی لہرنے ملک کومتاثرکیا،اس وقت ہمیں جوخطرہ آرہاہے وہ کوویڈ سے ہیں بصورت دیگراقتصادی اشاریے بحالی کی عکاسی کررہے ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت کا معاشی فلسفہ یہ ہے کہ اب ہمیں استحکام سے بڑھوتری کی طرف جاناہے، اس کیلئے حکومت نے لائحہ عمل وضع کرلیاہے۔ حکومت سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے فنڈز میں اضافہ، زراعت اورتعمیرات کے شعبہ جات کو ترجیح دے رہی ہے اور ان شعبوں کیلئے مراعات دی جارہی ہے، اس سے ملک میں روزگارکے مواقع کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔ حکومت محصولات کے شعبہ پرتوجہ دے گی، ہمیں امیدہے کہ کوویڈ19 کی حالیہ لہرمختصرثابت ہوگی اوراس لہرکے بعدبحالی کی ٹرین دوبارہ پٹری پرچڑھ جائیگی۔
انہوں نے کہاکہ ل ایف بی آر نے اچھا کام کیاہے تاہم لوگوں کوہراساں کیا جارہاہے، اس کی وجہ سے لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آرہے۔ بجٹ میں ہراسمنٹ کے خاتمہ کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، بجلی کے شعبہ کوبہتربنانے پربھی کام ہورہاہے، اس وقت کیپسٹی ادائیگیوں کامعاملہ اہم ہے، اگرگروتھ کی شرح 7 فیصد سے زیادہ ہوں توادائیگیاں مسئلہ نہیں ہوتی۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کی 60 فیصد کی قریب آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جن کازراعت پرانحصارہے، زرعی شعبہ کا ملک میں روزگارکی فراہمی میں کلیدی کردارہے، حکومت زراعت، آبپاشی کیلئے پانی، بیجوں کی فراہمی، زرعی قرضوں میں اضافہ، اورزرعی مصنوعات کی مارکیٹنگ پرتوجہ دے گی۔انہوں نے کہاکہ ہماری صنعت میں مسابقت نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری درآمدات زیادہ ا وربرآمدات کم ہے، حکومت صنعتوں کومضبوط اورمستحکم بنائیگی، پاکستان میں برآمدات سے متعلق صنعتوں میں براہ راست راست بیرونی سرمایہ کاری صفر ہے، جن ممالک نے ترقی کی ہے انہوں نے برآمدات پرمبنی صنعتوں میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کیلئے اقدامات کئے، اس ضمن میں حکومت چین پاکستان اقتصادی راہداری کواستعمال میں لائیگی، خصوصی صنعتی زونزمیں آوٹ سورس صنعتوں کے قیام کیلئے چین سے رابطہ کیاجائیگا، اس سے 85 ملین روزگارکے مواقع پیداہونے کاامکان ہے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اہم صنعت ہے، اس میں 65 فیصد گروتھ ہورہی ہے جسے 100 فیصدسے زائد تک بڑھایاجاسکتاہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کاشعبہ پاکستان کیلئے گیم چینجرثابت ہوسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ ہاوسنگ شعبہ اہمیت کاحامل ہے،وزیراعظم نے اس شعبہ پرخصوصی توجہ دی ہے، پاکستان میں اس وقت مارگیج قرضوں کی شرح پوائنٹ 25 ہے جوبہت کم ہے، اس کے قرضوں پرسود کی شرح زیادہ تھی، حکومت نے اس شعبہ کی راہ میں حائل رکاٹوں کودورکیاہے اوریہ ملک کی معاشی بڑھوتری میں اہم کرداراداکرے گا۔