اسلام آباد،30جون (اے پی پی):قومی اسمبلی نے 30 جون 2021ء کو ختم ہونے والے مالی سال اور گزشتہ دو سالوں 2018-19ء اور 2019-20ء کے ضمنی مطالبات زر کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق مالی سال 2020-21ء کے لئے 487 ارب 14 کروڑ 81 لاکھ روپے، 2018-19ء کے لئے 169 ارب 1 کروڑ 63 لاکھ اور 2019-20ء کے لئے 590 ارب 27 کروڑ روپے سے زائد کے ضمنی مطالبات زر کی منظوری دی گئی ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین اور پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ زین قریشی نے یکے بعد دیگرے کابینہ ڈویژن اور اس کے ماتحت اداروں، ایٹمی توانائی، شعبہ ہوابازی، شعبہ تخفیف غربت و سماجی تحفظ، مواصلات، دفاعی خدمات، شعبہ بجلی، وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت، اعلیٰ تعلیمی کمیشن، شعبہ قومی تاریخ و ادبی ورثہ، وفاقی و صوبائی حکومتوں کے مابین امدادی رقوم و متفرق تطبیق، اعانتیں و متفرق اخراجات، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، امور خارجہ، ہائوسنگ اینڈ ورکس، صنعت و پیداوار، اطلاعات و نشریات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، داخلہ، قانون و انصاف ، قومی احتساب بیورو، ساحلی امور، انسداد منشیات، قومی تحفظ خوراک و تحقیق، نیشنل ہیلتھ سروسز و ریگولیشنز، نجکاری، مذہبی امور، قومی پیشہ وارانہ و تکنیکی و تربیتی کمیشن، وفاقی حکومت کی طرف سے ترقیاتی اخراجات، منصوبہ بندی و ترقی و خصوصی اصلاحات، پٹرولیم پر مصارف سرمایہ، سول ورکس، صنعتی ترقی پر مصارف سرمایہ، ریلوے پر مصارف سرمایہ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، وزیراعظم آفس، کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس، خزانہ ڈویژن، سول آرمڈ فورسز، فرنٹیئر کانسٹیبلری، پاکستان کوسٹ گارڈ، پاکستان رینجرز، ٹیکسٹائل، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام، آبی وسائل، ہنگامی امداد اور بحالی، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، سرمایہ کاری بورڈ، موسمیاتی تبدیلیوں، تجارت، وفاقی حکومت کے چھائونیوں اور گیریژنز میں تعلیمی اداروں، جیالوجیکل سروے آف پاکستان، الائونسز کہن سالی و پنشن، اقتصادی امور، کسٹم، ان لینڈ ریونیو، سول ورکس، شعبہ انسانی حقوق، فیڈرل لاجز، نظامت مطبوعات، نیوز ریلیز اور ڈاکومنٹریز، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، شعبہ امور کشمیر و گلگت بلتستان، اسلامی نظریاتی کونسل، ضلعی نظام عدل، سمندر پار پاکستانیوں اور ترقی انسانی وسائل، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سرحدی علاقہ جات، افغان مہاجرین، سپارکو، منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور ریاستوں و سرحدی امور کی وزارت سمیت دیگر وزارتوں اور ڈویژنز کے گزشتہ تین مالی سالوں کے ضمنی مطالبات زر کی منظوری دی گئی۔
ضمنی بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن رانا تنویر حسین نے کہا کہ ضمنی گرانٹ انتہائی ایمرجنسی کی صورتحال میں مانگی جاتی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے کہا کہ ملک میں 14,14 گھنٹوں کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ شاہدہ اختر علی نے کہا کہ آئین کے مطابق تمام مالیاتی اداروں کا آڈٹ ہونا ضروری ہے، وزارت خزانہ کا بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو فرانزک اور جدید آڈٹ کے ذرائع آگئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رکن احسن اقبال نے کہا ک نیب کے لئے ساڑھے پانچ ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کیوں دی گئی ہے۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ جن وزارتوں کے لئے سپلیمنٹری گرانٹس مانگی جارہی ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے۔ بچوں کو آن لائن تعلیم دے کر ان پر امتحانات کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ پاور ڈویژن کے لئے اربوں روپے مانگے جارہے ہیں مگر ملک بھر میں بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ چترال میں تھری جی اور فور جی سروس بالکل نہیں ہے۔
عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ سپلیمنٹری بجٹ پہلے کیوں مخفی رکھا گیا۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شہناز نصیر بلوچ نے کہا کہ ضمنی گرانٹس میں بلوچستان کے لئے اگر کچھ ہے تو ہمیں آگاہ کیا جائے۔ بلوچستان میں تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی ، زراعت اور مواصلات سے متعلق مسائل بدستور موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن کی شائستہ پرویز ملک نے کہا کہ بعض گرانٹس کے خلاف عدلیہ کے فیصلے آئے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔ ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے لئے فنڈز مانگے جارہے ہیں حالانکہ حکومت نے لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا۔ دیگر اپوزیشن ارکا ن نے بھی ضمنی بجٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے آئین اور قانون کاخیال رکھا جائے۔