اسلام آباد،16ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر قانون و انصاوف بیرسٹر ڈاکٹر محمد فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ہم ایسی قانون سازی کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے طاقتور قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے اور کمزور طبقے کو پورا پورا انصاف میسر آسکے، قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے قائم کمیٹی کے ذمہ جو امور لگائے گئے ہیں وزارت قانون پہلے اس میں سے کئی قوانین پر کام کرچکی ہے، عصمت دری کی روک تھام کے قانون پر عملدرآمد ہو تو ایسے واقعات میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔
قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کمیٹی کا پہلا اجلاس جمعرات کو وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر ڈاکٹر محمد فروغ نسیم کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں صوبائی محکمہ داخلہ کے نمائندوں اور دیگر متعلقہ محکموں کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری قانون و انصاف بیرسٹر ملیکہ علی بخاری بھی اجلاس میں موجود تھیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت قانون پہلی وزارت ہے جس نے قومی ایکشن پلان کے حوالے سے اجلاس بلایا ہے۔ وزیراعظم نے نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان کی منظوری دی اور اس پر عملدرآمد کیلئے چار کمیٹیاں تشکیل دینے کی بھی منظوری دی جس کی سربراہی وزیرقانون کر رہے ہیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ قومی ایکشن پلان کے حوالے سے وزارت کو سونپی گئی ذمہ داریوں میں سب سے مشکل کام فوجداری قانون میں بہتری لانا تھا جو ہم پہلے ہی کرچکے ہیں۔ یہ کام تکنیکی طور پر وزارت داخلہ سے متعلقہ تھا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ گزشتہ سال نومبر میں وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ انسداد عصمت دری کا قانون بنایا جائے، ہم نے دن رات اس پر کام کرکے یہ قانون بنایا جس کو سراہا جا رہاہے، لاہور ہائی کورٹ نے بھی اس کو سراہا جبکہ یورپی ممالک میں اسے سراہا جا رہا ہے۔ یہ قانون قومی اسمبلی منظور کرچکی ہے جسے اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس قانون پر درست طریقے سے عمل درآمد کیا گیا تو ملک میں عصمت دری کے واقعات میں نمایاں کمی آئے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ فروری 2021 میں وزیراعظم عمران خان نے انہیں فوجداری قانون سے متعلق اصلاحات کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کی، ہمارے پڑوسی ملک میں کریمینل اصلاحات سے متعلق قوانین کا مسودہ بنانے میں 26 سال لگے جبکہ ہم اس قانون پر سخت محنت کی اور جون 2021ء میں پہلا مسودہ وزیراعظم کو ارسال کیا جس میں 650 ترامیم تجویز کی گئیں ان قوانین میں ضابطہ فوجداری قانون، پاکستان پینل کوڈ، قانون شہادت آرڈر، انسداد منشیات ایکٹ، ریلوے ایکٹ، پاکستان پریزنز رولز، اسلام کیپیٹل ٹیریٹری، کریمینل پراسیس سروس اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹری فرانزک ایکٹ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں صوبائی پولیس، اسلام آباد پولیس، پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ، پراسیکیوٹر جنرل کے علاوہ وکلا، این جی اوز، انسانی حقوق سے متعلقہ وکلا، صوبوں کے محکمہ داخلہ، اٹارنی جنرل آفس کے نمائیدوں، تمام صوبوں کے سیکرٹری قوانین، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل آفس کے ممبران سے بھی مشاورت کی گئی۔ ان ترامیم کے دوران 1981ء سے لاء اینڈ جسٹس کمیشنز کی متعلقہ روپورٹس کی بھی چھان بین کی گئی۔ان ترامیم کو بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تیز ترین انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ان ترامیم کے ذریعے ایف آئی آر درج کرانے کا ایک موثر اور تیز ترین طریقہ کار متعارف کرایا جارہا ہے۔ترامیم کے ذریعے مقدمات کے زیرالتوا ہونے کی تعداد میں ایک بڑی حد تک کمی آئے گی۔مقدمات کی پیروی کرنے کے وقت میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکے گی۔ پولیس کی عوام کے ساتھ زیادتی کو ختم کیا جا سکے گا۔ان ترامیم کے ذریعے مقدمات کو شفاف طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے گا۔شواہد اکھٹے کرنے میں مزید بہتری اور تیزی لائی جا سکے گی۔جدید آلات کے استعمال کو انصاف کی فراہمی کے لیے بروئے کار لایا جاسکے گا۔ یہ ترامیم دو ہفتوں میں کیبنٹ کمیٹی فار ڈسپوزل آف لیجسلیٹو کیسز (سی سی ایل سی) میں پیش کی جائیں گی۔وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ کافی کام جو اس کمیٹی نے کرنے ہیں وہ وزارت قانون پہلے ہی کر چکی ہے۔
وفاقی وزیر بیرسٹر فروغ نسیم نے انسداد دہشت گردی کے محکمے سے دہشت گردی کے حوالے سے متعلقہ مقدمات کی تفصیل پیش کرنے کو کہا جو کہ زیر التوا ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم ایسی قانون سازی کرنا چاہتے ہیں جس سے طاقت ور ترین بھی قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے اور کمزور طبقے کو بھی پورا پورا انصاف میسر آسکے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ کمیٹی بہت طاقتور ہے اور بطور چیئرمین میں اس عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ میں اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن اور پوری ایمانداری کے ساتھ نبھائوں گا۔