دوشنبے،17ستمبر (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے اس امر پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں نئی حقیقت کا ادراک کرے،افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی بجائے اس کے ساتھ رابطے بڑھانا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، طالبان کو بھی اپنے وعدوں کی پاسداری کیلئے ہر ضروری قدم اٹھانا ہو گا، جامع سیاسی ڈھانچہ کی تشکیل کا وعدہ پورا کیا جائے، قومی مفاہمت سے ہی امن کو تقویت ملے گی، افغانستان میں جامع سیاسی ڈھانچے کا قیام امن و استحکام کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
جمعہ کو یہاں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے وفود کے سربراہان اور افغانستان میں رسائی کے موضوع پر کولیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او )کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم اور افغانستان کے حوالہ سے سی ایس ٹی او کے غیر معمولی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا ان کیلئے اعزاز کا باعث ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو بجا طور پر عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، مجھے یقین ہے کہ آج یہاں ہونے والے غوروفکر سے پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کی تلاش میں سرگرداں ایک عام افغان شہری جو پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، کے مقصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ قریبی ہمسائے کی حیثیت سے کئی عشروں سے منفی اثرات کے باعث پاکستان بری طرح متاثر ہوا اور پاکستان کا امن سے گہرا مفاد وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج افغانستان تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے، 40 سال کے تنازعات اور عدم استحکام کے بعد اب جنگ کے خاتمے اور پائیدار امن کے قیام کا امکان پیدا ہواہے، یہ صورتحال غیر متوقع طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، غیر ملکی افواج کو ایک روز واپس جانا تھا، ہماری خواہش تھی کہ ایسا زیادہ یقینی اور متوقع انداز میں ہوتا تاہم افغان سکیورٹی فورسز کا شیرازہ بکھرنا اور افغان حکومت کا خاتمہ اتنا اچانک ہوا جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی، پھر بھی کسی خونریزی کے بغیر انتقال اقتدار ہواجو پاکستان کیلئے بہت زیادہ اطمینان کا باعث ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ خانہ جنگی کا امکان جس کے بارے میں ہمیں شدید فکر لاحق تھی ، ٹل گئی ہے اور افغان مہاجرین کے جن بڑے پیمانے پر انخلا کا خدشہ تھا خوش قسمتی سے وہ بھی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں انسانی اور ممکنہ اقتصادی بحران دونوں فوری اور کٹھن چیلنجز ہیں، افغانستان کی ایسی معیشت جس کا انحصار غیر ملکی امداد پر تھا اور وہ ایک جنگی معیشت تھی، سے پائیدار معیشت کی جانب قدم بڑھانا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس موقع پر بین الاقوامی برادری کے سامنے دو راستے ہیں، ایک یہ کہ رابطوں کو بڑھایا جائے یا پھر سوویت انخلا کے بعد جس طرح ہوا اس طرح افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا جائے ، افغانستان میں عدم استحکام، جیسا کہ عظیم شاعر علامہ محمد اقبال نے بجا طور پر نشاندہی کی تھی، پورے خطہ کو متاثر کرتا ہے اور افغانستان میں استحکام پورے خطہ کے مفاد میں ہے، افغانستان کو تنہا کرنا ہمیں ایک ایسی غیر مستحکم صورتحال کی طرف واپس دھکیل دے گا جس کا نتیجہ خانہ جنگی ، ہمسایہ ممالک پر منفی اثرات، پناہ گزینوں کا سیلاب، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ، منشیات کی سمگلنگ اور منظم بین الاقوامی جرائم کی صورت میں نکل سکتا ہےاس لئے افغانستان کے ساتھ رابطے بڑھانا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
وزیراعظم نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ حقیقت پسندانہ جائزے اور عملیت پسند سوچ پر مبنی نئے تناظر کے ساتھ افغانستان میں نئی حقیقت کا ادراک کرے، ہماری تمام اجتماعی کوششوں کا مقصد سلامتی کی صورتحال کو مستحکم بنانا، کسی نئے تنازعہ اور بڑےپیمانے پر عوامی انخلا کو روکنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہم سب کے مفاد میں ہے کہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ افغانستان دوبارہ کسی دہشت گرد تنظیم کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے اس سلسلہ میں طالبان کو اپنے وعدوں کی پاسداری کیلئے ہر ضروری قدم اٹھانا ہو گا، افغانستان میں جامع سیاسی ڈھانچہ کی تشکیل کا وعدہ بھی پورا کیا جانا چاہئے ، قومی مفاہمت سے ہی امن کو تقویت ملے گی، اسی طرح طالبان کو بدنام کرنے اور داخلی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوششوں کو بھی مسترد کیا جانا چاہئے، بعض کی جانب سے اس طرح کی غیردانشمندانہ سوچ سے چیلنجز حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوں گے۔