وزیراعظم عمران خان چیئرمین نیب کی تقرری کے لئے شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے؛ چوہدری فواد حسین

13

اسلام آباد،6اکتوبر  (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان چیئرمین نیب کی تقرری کے لئے شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے، ہمارا واضح موقف ہے کہ اپوزیشن سے تو مشاورت ہوگی لیکن شہباز شریف سے نہیں، اگر اپوزیشن کو شوق ہے کہ لیڈر آف اپوزیشن سے مشاورت ہو تو اسے اپنا اپوزیشن لیڈر بدل لینا چاہئے، شہباز شریف نیب کے ملزم ہیں، ان سے مشاورت کا مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے چور سے پوچھا جائے کہ اس کا تھانیدار کون ہوگا۔

بدھ کو یہاں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمارا مقصد نیب مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے، نیا مجوزہ قانون اس وقت قانون کی شکل اختیار کرے گا جب صدر مملکت اس پر دستخط کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس آرڈیننس کا دوسرا حصہ ایکٹ بھی آئے گا، ہم آرڈیننس پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کریں گے، اپوزیشن کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر وہ مزید ترامیم یا اپنی رائے دینا چاہتی ہے تو ہمیں فراہم کر دے، ہم پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت ریفارمز لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نیب بڑی کرپشن کے لئے بنا تھا، اس میں کاروبار اور دیگر چیزوں کو شامل کرنے سے نیب کا معیار گرا ہے، ہم نیب کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

 ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے، اس بارے میں ہمارا موقف بڑا واضح ہے کہ اپوزیشن سے تو مشاورت ہوگی لیکن شہباز شریف سے مشاورت نہیں ہو سکتی کیونکہ شہباز شریف نیب کے ملزم ہیں اور ان سے مشاورت کا مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے چور سے پوچھا جائے کہ اس کا تھانیدار کون ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو لیڈر آف اپوزیشن سے مشاورت کرانے کا شوق ہے تو اسے اپنا اپوزیشن لیڈر بدل لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ ہم چوروں سے پوچھ کر تھانیدار لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن لیڈر میں تھوڑی بہت بھی حیا ہوتی تو وہ خود ہی اپوزیشن لیڈر کے عہدہ سے ہٹ جاتے، ایک شخص جو نیب میں ملزم ہو اور وہ خود بضد ہو کہ چیئرمین نیب کی تقرری پر اس سے مشاورت کی جائے، غیر مناسب ہے۔

 وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم نے نیب سے نجی اور بینکنگ تنازعات اور ٹیکس کو نکال دیا ہے، نیب کی توجہ اب بڑی کرپشن پر ہوگی، نیب کو بڑی مچھلیوں پر نظر رکھنی ہے، اس پر کیسز بننے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے، ان کا طریقہ کار تبدیل کر کے انہیں مضبوط کیا جائے گا۔ پراسیکیوشن کی مضبوطی کے لئے پراسیکیوٹر جنرل کے آفس کو بھی مضبوط کیا گیا ہے، اب پراسیکیوٹر جنرل جو ریفرنس فائل کریں گے وہ ذمہ دار ہوں گے کہ اس میں سزا بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے پہلی مرتبہ ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دیا ہے۔

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ نئے چیئرمین نیب کی تقرری صدر مملکت آف پاکستان ،قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد کرینگے،مشاورت کے بعد اگر اتفاق رائے نہ ہو سکا تو چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالےسے سپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی کمیٹی بنائیں گے، پارلیمانی کمیٹی چھ اپوزیشن اور چھ حکومتی اراکین  پر مشتمل ہوگی۔   انہوں نے کہا کہ عام خیال یہ تھا کہ تاجر برادری اور بیوروکریسی نیب قانون سے تنگ ہو رہی تھی، کاروباری افراد اور بیورو کریسی ملک کے اہم ستون ہیں،پرائیویٹ پرسن کو مکمل نیب کے اختیارات سے نکال دیا گیا ہے، کچھ آفس ہولڈرز کے پروسیجنل لیپسز ہوتے ہیں لیکن ان کی نیت ٹھیک ہوتی ہے، آفس ہولڈر کے پروسیجنل لیپسز کو بھی نیب اختیارات سے نکال دیا گیا ہے،  نیب آرڈیننس میں بیورو کریسی کے لئے بھی نیک نیتی سے ترمیم لائے ہیں، ایسی ترامیم لانے پر اتفاق ہوا کہ ٹیکس معاملات ایف بی آر کو منتقل کئے جائیں، نیب آرڈیننس سے  کیسز ختم نہیں ہوں گے بلکہ فورم تبدیل ہو رہا ہے، ایف بی آر کے پاس بھی جرمانے عائد کرنے، ریکوری کرنے اور ٹیکس کے معاملات کو حل کرنے کی پاور موجود ہے، ایف بی آر تحقیقات کر سکتا ہے۔

 وفاقی وزیر نے کہا کہ بدقسمتی سے بیورو کریسی کے معاملے میں اپوزیشن آڑے آ گئی،بدقسمتی سے اپوزیشن نے چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے آرڈیننس کے معاملہ پر بھی  سیاست کی،اپوزیشن نیب کی ترامیم میں اپنی 34 ترامیم  لے آئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرڈینس قانون سازی کا حصہ ہے ایزیکٹو پاور نہیں ہے، قانون سازی کے دو طریقے ہیں ، آرڈیننس اور بل، دونوں راستے پارلیمنٹ کی طرف ہی جاتے ہیں۔

وفاقی وزیر فروغ نسیم نے کہا کہ ملک میں 90 نیب عدالتوں کے قیام کی سفارش کی ہے،ہمارے پاس اتنے ججز نہیں ہیں کہ موجودہ ججز میں سے احتساب عدالتوں کے جج تعینات کیے جائیں، ڈسٹرکٹ اینڈ  سیسشن ججز احتساب عدالتوں کے ججز لگائے جا سکتے ہیں،ریٹائرڈ ججز جن کی عمر 68 سال سے کم ہے ان کو بھی احتساب عدالتوں کا جج لگایا جا سکتا ہے لیکن ان کی  کنسلٹیشن چیف جسٹس آف پاکستان سے ہوگی،احتساب عدالتوں میں ججز متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی   مشاورت  سے لگائے جائیں گے۔

 فروغ نسیم نے کہا کہ  چیئرمین نیب کے لئے لفظ نان ایکسٹینڈ ایبل کو تبدیل کیا ہے، نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک موجودہ چیئرمین نیب فرائض سر انجام دیتے رہیں گے، نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک موجودہ چیئرمین نیب کو تمام اختیارات حاصل ہوں گے، موجودہ چیئرمین نیب کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، چیئرمین نیب کے مس کنڈیکٹ سے متعلق شکایت جوڈیشل کونسل میں کی جا سکے گی ،اگر چیئرمین نیب کی سزا جزا کا معاملہ ہوتا ہے تو معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل کا کردار بہت حد تک بڑھا رہے ہیں،،نظام کی شفافیت کے لئے پراسیکیوٹر جنرل اہم کردار ادا کرتا ہے،نیب کا پورا ادارہ پراسیکیوٹر جنرل کو آزادانہ مشورہ دے گا، پروسیکیوٹر جنرل اپنی فائنڈنگ کے بعد چیئرمین نیب کو مشورہ دے گا کہ یہ کیس جاری رکھیں یا ودڈرا کریں ۔

وفاقی وزیر فروغ نسیم نے کہا کہ ضمانت کے حوالے سے اختیارات ہائیکورٹ  کو دئیے جا رہے ہیں،ضمانت دینی ہے یا نہیں یہ عدالت کا اختیار ہوگا،پہلے یہ ہوتا تھا لوگ دس دس سال سزا کے باوجود نوکریوں پر رہتے تھے،سزا بھگتنے والے ملازمین خود مستعفی ہوجائیں نہیں تو اس قانون کے تحت وہ نااہل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرے اور فواد چوہدری کے بیانے میں کوئی فرق نہیں ہے ،میرے اور فواد چوہدری کے بیانیے میں فرق سے متعلق باتیں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں ۔