اسلام آباد۔16دسمبر (اے پی پی):وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ 19 دسمبر کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کے تین سیشن ہوں گے،سیکرٹری جنرل او آئی سمیت مہمان وفود جمعہ کو پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے،ابتدائی اور اختتامی سیشن اوپن جبکہ ورکنگ سیشن ان کیمرہ ہو گا، اجلاس میں ہم نے افغان وفد کو بھی مدعو کیا ہے۔روس اور امریکہ نے بھی اپنے نمائندوں کو بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی جمعرات کو وزارتِ خارجہ میں ٹی وی اینکرز اور نیوز ایڈیٹرز کو افغانستان کی صورتحال اور او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دے رہے تھے۔وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد حسین چوہدری اور وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے اجلاس میں خصوصی شرکت کی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں ایک طویل عرصے کے بعد 19 دسمبر کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس ہونے جا رہا ہے، 15 اگست کے بعد افغانستان میں جو تبدیلی رونما ہوئی اور اس کے بعد اس تبدیلی کے حوالے سے کئی خدشات سامنے آئے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پڑوسی نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے “سینکشن پاکستان” کی میڈیا مہم چلائی۔اللہ کے کرم سے ان کا جھوٹ بے نقاب ہوا اور ہمارے میڈیا نے اس جھوٹ کو بے نقاب کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا،اس وقت افغانستان میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کے معاشی و انسانی بحران کے سبب مہاجرین کی یلغار کا خطرہ پھر سے سر اٹھا رہا ہے، پاکستان، نے 15 اگست کے بعد افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک سے رابطہ اور مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا۔ہم نے مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے افغانستان کے چھ قریبی ہمسایہ ممالک کا فورم تشکیل دیا،اس فورم کا پہلا ورچول اجلاس پاکستان جبکہ دوسرا تہران میں ہوا جبکہ تیسرا بیجنگ میں متوقع ہے۔اس کے علاوہ ہم نے ماسکو فارمیٹ میں اپنا نقطہ نظر اور ٹرائیکا پلس کے فورم کے ذریعے بھی افغانستان کی صورتحال پر اپنا موقف پیش کیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ، اقوام متحدہ کی ایجنسیز، پی 5،اور اہم یورپی ممالک کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا ہے۔ہم کسی ایک طبقے کی بات نہیں کر رہے بلکہ لاکھوں افغان شہریوں کی بات کر رہے ہیں جو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔یو این ڈی پی کے مطابق 2022 کے وسط تک 97 فیصد افغان سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق محض 5فیصد افغانوں کو مناسب خوراک میسر ہے۔افغانستان میں بینکنگ سسٹم کی عدم دستیابی کے باعث افغانستان سے باہر مقیم لوگ، چاہتے ہوئے بھی، افغان شہریوں کےلئے کوئی معاشی مدد بھیجنے سے قاصر ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ سیکرٹری جنرل او آئی سی سمیت مہمان وفود (آج)جمعہ سے پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے جبکہ 19 تاریخ کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے تین سیشن ہوں گے،ابتدائی اور اختتامی سیشن اوپن جبکہ ورکنگ سیشن ان کیمرہ ہو گا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عالمی برادری افغانوں کی مدد پر آمادہ ہے لیکن انہیں کچھ نکات پر تشویش ہے،جن میں افغانستان میں انسانی حقوق کی پاسداری، دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کی ضمانت اور محفوظ انخلاءجیسے نکات شامل ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے عالمی برادری کے خدشات، افغان عبوری قیادت تک پہنچائے اور انہیں باور کروایا کہ انہیں عالمی برادری کے خدشات کو دور کرنا ہو گا۔دوسری طرف ہم نے عالمی برادری کو بھی باور کروایا کہ وہ نوے کی دہائی کی غلطی نہ دہرائے،اگر افغانستان میں صورتحال قابو میں نہ آ ئی تو یہ سب کیلئے خطرے کا موجب ہو گی، مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج افغان عبوری حکومت کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے وسائل موجود نہیں۔اس اجلاس میں ہم نے افغان وفد کو بھی مدعو کیا ہے تاکہ وہ اپنا موقف خود پیش کر سکیں اور صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے 11 اہم کمانڈرز اور سابق سفرا، جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، وہ اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، ان کی مدد کی جائے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ روس اور امریکہ نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس میں اپنے نمائندوں کو بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 15 اگست کے بعد دو لاکھ نوے ہزار افغان شہری پاکستان میں آ چکے ہیں اگر اس تعداد میں اضافہ ہوا تو ہماری معیشت اس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکے گی۔