فیصل آباد،3جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ شریف فیملی کے پاس لندن کی جائیدادوں کے ثبوت نہیں کہ یہ جائیدادیں کیسے خریدیں، ہمارا نواز شریف سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں، وہ پاکستان واپس آئیں اور اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں، اپوزیشن ایک ہفتے فوج ، دوسرے ہفتے عدلیہ کے خلاف ہوتی ہے، یہی ان کی سیاست ہے، فرقہ واریت پر مبنی سیاست پاکستان کے مستقبل کے لئے درست نہیں، اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے، مولانا فضل الرحمان کی قیادت اپوزیشن کے لئے بڑی بدنصیبی ہے، الیکشن ہاریں تو مولانا فضل الرحمان کہیں گے کہ دھاندلی ہوئی ہے، اگر وہ جیت جائیں تو الیکشن شفاف ہوئے ہیں، بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہوگی، ان کی ناکامی سے نقصان پاکستان کا ہوگا، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بلیک میل کر کے اپنے کیسوں میں ریلیف حاصل کرلے گا، تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا، ہم احتساب کے ایجنڈے پر الیکشن جیتے ہیں، ہمارا ووٹر احتساب پر عمل ہوتا دیکھنا چاہتا ہے، ہم احتساب سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، 2022ءمقامی حکومتوں کے الیکشن کا سال ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے کوشاں ہیں، عالمی منڈی میں کموڈیٹی اور انرجی پرائسز کم ہونا شروع ہو گئی ہیں، اس کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے، ملک میں مکمل سیاسی اور معاشی استحکام ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں، ان شاءاللہ وسط جنوری تک فنانس (ترمیمی) بل بھی منظور ہو جائے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام آ رہا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ تیل، گھی اور دالوں کی یہاں پیداوار نہیں ہوتی، ان کی قیمتیں ہم طے نہیں کرتے، ہم صرف ان چیزوں کی قیمتوں کا تعین کر سکتے ہیں جو پاکستان کے اندر پیدا ہوتی ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کے اندر پیدا ہونے والی اشیاءکی قیمتیں اس وقت اس پورے خطے میں سب سے کم ہیں، بیرون دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھیں گی تو یہاں بھی اضافہ ہوگا، قیمتیں کم ہوں گی تو یہاں بھی کم ہوں گی۔
چوہدری فواد حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ہماری حکومت کے پہلے سال ہی مارچ کے لئے آ گئے تھے، 23 مارچ ابھی دور ہے، امید ہے وہ اس روز بھی نہیں آئیں گے اور اگر آ بھی جائیں تو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نئے سال میں تلخیوں کو کم کرنا چاہئے، بڑی سیاسی جماعتیں بڑے امور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں اور اصلاحات پر بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ ان کی ناکامی سے پاکستان کا نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے اندر لڑائی جھگڑے کا عام آدمی کی نظر میں منفی تاثر قائم ہوتا ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ بلیک میل کر کے اپنے کیسوں میں ریلیف حاصل کرلے گا، تو ایسا ہر گز نہیں ہوگا، عمران خان پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ ہم احتساب کے ایجنڈے پر الیکشن جیتے ہیں، ہمارا ووٹر احتساب کا عمل مکمل ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ ہم زرداری اور نواز شریف سے لوٹی ہوئی دولت وطن واپس نہیں لا سکے، بہت سا پیسہ واپس بھی آیا لیکن مرکزی ملزمان ملک سے باہر ہیں، عام آدمی اس پراسیس سے مطمئن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم احتساب کے عمل سے پیچھے ہٹ جائیں تب ہی اپوزیشن کوئی بات کرے گی تو یہ رویہ غیر نامناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انتخابی، معاشی اور جوڈیشل ریفارمز کی ضرورت ہے، بڑی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ مل بیٹھ کر بڑے مسائل پر بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹورل ریفارمز پر دو تہائی سے زائد ایسی اصلاحات ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن متفق ہیں، چیئرمین نیب کی تعیناتی اور احتساب کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے اپوزیشن کی تجاویز کا خیرمقدم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں انتخابی اصلاحات، احتساب اور عدلیہ میں اصلاحات پر بات کرنی چاہئے، اگر ان معاملات کو یہ اپنے کیسوں سے جوڑیں گے تو یہ قبول نہیں ہوگا۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ سیاستدانوں کو عوام کو امید دینی چاہئے کہ پارلیمان عوام کے مسائل کے حل کا ادارہ ہے، اگر پارلیمان میں طوفان بدتمیزی بپا رہے گا تو لوگوں کی توقعات پارلیمنٹ سے وابستہ نہیں رہیں گی، ہمیں سنجیدگی سے معاملات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں اپوزیشن نے پہلے سال ہی شروع کر دی تھیں لیکن وہ کچھ نہیں کر سکی۔ اگست کے بعد حکومت کا آخری سال شروع ہو جائے گا، اس سے پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں گے، اپوزیشن الیکشن لڑنے کا شوق مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لے کر پورا کرلے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار خیبر پختونخوا میں شفاف انتخابات ہوئے، ہارنے اور جیتنے والے دونوں نے انتخابات کی شفافیت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان غیر جانبداری پر یقین رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی شفافیت پر سمجھوتہ نہیں کیا، ہم صاف شفاف انتخابات کے لئے نظام تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2022ءبلدیاتی الیکشن کا سال ہے، ان شاءاللہ پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی صاف اور شفاف ہوں گے، عوام کا انتخابات پر بھرپور اعتماد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت 800 سے زائد نشستوں پر اپنے امیدوار نہیں کھڑی کر سکتی، ن لیگ سینٹرل پنجاب اور پیپلز پارٹی سندھ کی جماعتیں ہیں، کے پی الیکشن میں یہ تجزیہ بہت ہوا کہ پی ٹی آئی پشاور کا الیکشن ہار گئی ہے لیکن یہ تجزیہ نہیں ہوا کہ ن لیگ اور پی پی پی تو اپنے امیدوار ہی نہیں کھڑے کر سکیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ فرقہ واریت پر مبنی سیاست پاکستان کے مستقبل کے لئے درست نہیں، اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے، بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ پی پی پی اور ن لیگ قومی سیاست کریں، پیپلز پارٹی نے سندھ کے شہریوں کو صحت کارڈ سے محروم کر رکھا ہے جو سندھ کے عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے، سندھ کے وزیراعلیٰ کو لگتا ہے کہ اس سے ان کی سیاست متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان کی سیاست، خارجہ پالیسی، معیشت پر ہم سب متحد ہیں اور اس کے مطابق آگے چلیں گے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان الیکشن ہاریں تو کہیں گے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے، اگر وہ الیکشن جیت جائیں تو الیکشن شفاف ہوئے ہیں، یہ روندو اپوزیشن ہیں، مولانا فضل الرحمان کا اپوزیشن کی قیادت کرنا بہت اپوزیشن کی بڑی بدنصیبی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو وطن واپس آنا چاہئے، یہاں ان پر مقدمات ہیں، وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں، ہمارا ان سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے، شریف فیملی کی لندن میں اربوں کی جائیدادیں ہیں، ان کے پاس ثبوت نہیں کہ یہ جائیدادیں کیسے خریدیں، جن اپارٹمنٹس میں نواز شریف مقیم ہیں ان کا پیسہ کہاں سے آیا، ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
چوہدری فواد حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان پہلے بھی مارچ کے لئے آئے تھے اور واپس چلے گئے، 23 مارچ بہت دور ہے، امید ہے وہ اس روز بھی نہیں آئیں گے، اگر آ بھی جائیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے بیان حلفی جمع کروایا تھا کہ وہ نواز شریف کو واپس لائیں گے، اٹارنی جنرل آفس اس معاملے کو دیکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ایک ہفتے فوج مخالف ہوتی ہے، دوسرے ہفتے عدلیہ کے خلاف، یہی ان کی سیاست ہے۔