اسلام آباد، 31 مئی (اے پی پی ): ترکی کی سرحدیں تو پاکستان سے نہیں ملتیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور ترک عوام کے دل آپس میں ملتے ہیں ۔ترک جمہوریہ، دنیا کا ایک ایسا منفرد ملک ہے جس کے باسیوں کے تعلقات سرزمینِ پاکستان میں بسنے والے لوگوں سے قیامِ پاکستان 1947ء بلکہ قراردادِ لاہور 1940ء سے بھی پہلے نمایاں طور پر موجود تھے۔برصغیر کے مسلمان جنگ عظیم اول کے فوراً بعد شروع ہونے والی ترک جنگ آزادی میں ترکوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ تحریک خلافت کے ذریعے ان کی سیاسی و مالی ہر لحاظ سے مدد بھی کی ۔
1947ء میں پاکستان نے آزادی کے بعد ترکی سے دوستی کا آغاز کیا۔قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح ، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو ترک جمہوریہ نے اپنے ایک معروف شاعر و ادیب اور دانشور یحییٰ کمال کو پاکستان میں اپنا سفیر نامزد کیا۔
پاکستان میں ترکی کے پہلے سفیر نے بانی پاکستان کو 4 مارچ 1948ء کو سفارتی اسناد پیش کیں۔ اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا ’’کئی تاریخی جنگوں میں آپ کے لیڈر کے کارنامے، آپ کے انقلاب کی کامیابی، عظیم اتاترک کا ابھرنا اور ان کا کیریئر، اپنے اعلیٰ تدبر سے ان کا آپ کو ایک قوم کی تعبیر دینا، حوصلہ مندی اور پیش بینی، ان تمام واقعات سے پاکستان کے عوام بخوبی واقف ہیں، درحقیقت برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری کے آغاز ہی سے ، آپ کے ملک میں رونما تبدیلیوں کا یہاں کے عوام پوری ہمدردی اور دلچسپی سے مشاہدہ کرتے رہے ہیں ۔‘‘
ترکی اور پاکستان کے پرچموں کے رنگ الگ الگ مگر ان پرچموں میں ستارہ اور بلاک بالکل ایک جیسے ہی ہیں۔ پاکستانی ترکی کو اور ترک پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔سرد جنگ کے زمانے میں دونوں ممالک ،آر سی ڈی, اور سینٹو جیسے علاقائی اتحاد میں شامل رہے۔جب یہ عالمی اتحاد ختم ہوئے تب بھی دونوں ممالک کی باہمی دوستی میں کمی نہیں آئی۔
آج ترکی، دنیا میں ابھرتا ہوا ایک اہم ملک ہے، اس تناظر میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت مزید مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔انقرہ، جدید ترکی کا دارالحکومت ہے اور اس جدید شہر کے وسط میں سب سے بڑی اور اہم شاہراہ بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کے نام سے منسوب ہے، “جناح جاہ دیسی” اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی “جناح جاہ دیسی” شاہراہ پر بھارت کا سفارت خانہ ہے۔
پاکستان میں مینارِ پاکستان، فیصل مسجد، داتا گنج بخش مسجد سمیت متعدد عمارات ترک معماروں کا کارنامے ہیں اور اسلام آباد سے لے کر لاڑکانہ تک متعدد شاہراہیں، جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کے نام سے منسوب ہیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان بہترین سیاسی، مذہبی، تاریخی اور ثقافتی تعلقات بھی قائم ہیں جس کی وجہ سے ترک پاکستانیوں کو کاردیش یعنی بھائی کہہ کر پکارتے ہیں۔
ترکی اور پاکستان نے ہر دور میں ثابت کیا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں کبھی کمی نہیں آئی۔اگر ان تعلقات کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ترک قوم کسی مشکل کا شکار ہوئی تو پاکستانیوں نے بلا جھجک ترکوں کی حمایت کی ،اسی طرح کسی مشکل کے موقع پر ترکوں نے پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ اور ہر فورم پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے، اسی طرح ترکی اور یونان کے درمیان قبرص کے مسئلے پر پاکستان نے روزِ اوّل سے ہی ترکوں کی کسی بھی عالمی رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیر حمایت کی۔
1999 میں ترکی میں میں آنے والے زلزلہ میں پاکستان نے ترکوں کی بھرپور مدد کی۔اسی طرح ترکوں نے بھی پاکستان میں آنیوالی قدرتی آفات زلزلے اور سیلاب کے مواقع پر پاکستان کی پر خلوص مدد کی۔
اگر خارجہ پالیسی اور سیکورٹی معاملات کو دیکھیں تو اسلام آباد انقرہ میں تعاون کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔دفاعی تعاون کی صورت میں پاکستان اور ترکی کی افواج کے مابین انتہائی مضبوط تعلقات استوار ہیں۔پاکستان اور ترکی کے درمیان لازوال تاریخی تعلقات ہیں۔ پاکستان اور ترکی اخوت ،بھائی چارے ،محبت اور باہمی احترام کے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ جمہوری طاقت کے دو ستون پاکستان اور ترکی خطے میں امن و استحکام کے لئے ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔