میرپورخاص،17 جون (اے پی پی): سندھ ہیومن رائٹس کمیشن، حکومت سندھ نے سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018 کے حوالے سے سرکاری افسران، سول سوسائٹی اور مذہبی رہنماؤں (پنڈتوں) کیلئے ایک روزہ آگاہی تربیتی سیشن کا انعقاد کیا۔
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے جوڈیشنل ممبر اسلم شیخ نے تعارف پیش کرنے کے ساتھ بتایا کہ ہندو شادیاں پہلے رجسٹر نہیں ہوتی تھیں لیکن سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018 کے پاس ہونے کے بعد شادیوں کی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی رکن انسانی حقوق کمیٹی کرشن شرما نے سندھ ہندو میرج ایکٹ کے نفاذ کی مختصر تاریخ، پس منظر، جدوجہد اور عمل کے بارے میں بتایا کہ سندھ اسمبلی نے ہندؤں کی شادیوں کی رجسٹریشن کے لیے سندھ ہندو میرج ایکٹ 2016 منظور کیا تھا، ترمیم کی تجویز کے مقابل ایکٹ میں کچھ خامیاں تھیں اور پھر ان ترامیم کو شامل کیا گیا اور اب ہمارے پاس سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018 ہے، سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018 میں جوڑوں کے لیے طلاق اور دوبارہ شادی کے حقوق اور طلاق کے بعد بیوی اور بچوں کی مالی حفاظت کے لیے ترمیم کی گئی ہے ۔
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی ممبر اقلیتی کمیٹی ایڈووکیٹ ایم پرکاش نے سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018 کی نمایاں خصوصیات کا اشتراک کیا۔انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے بعد اب ہمارے پاس طلاق کے حقوق اور دوبارہ شادی کے حقوق ہیں اور طلاق کے بعد ہمیں بیوی بچوں کا مالی تحفظ بھی حاصل ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہندو مذہب کے مطابق خون کے رشتے میں شادی کی اجازت نہیں ہے اور ایکٹ میں بھی اسی بات پر غور کیا گیا ہے۔
سیشن میں ایکٹ کے نفاذ میں محکمہ لوکل گورنمنٹ کو درپیش مسائل/چیلنجز اور پنڈتوں/شادی کے رجسٹریشن سے متعلق مسائل پر بھی بحث کی گئی۔
جوڈیشل ممبر اسلم شیخ جوڈیشل ، ممبر ایس ایچ آر سی پشپا کماری، ممبر ہیومن رائٹس کمیٹی ایس ایچ آر سی کرشن شرما، ممبر اقلیتی کمیٹی ایس ایچ آر سی ایڈوکیٹ ایم پرکاش، سپرنٹنڈنٹ شکایات اور انکوائریز عدنان خاصخیلی ، رکن انسانی حقوق کمیٹی نور احمد ناریجو، اور فریدہ طاہر نے شرکاء میں اسناد تقسیم کیں۔