فیصل آباد 26 ستمبر( اے پی پی): پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں ٹیکس ریٹرن داخل کرانے والوں کی شرح نصف سے بھی کم ہے جسے بڑھانے کیلئے ایف بی آر نے 30محکموں اور بینکوں سے ڈیٹا شیئرنگ شروع کر دی ہے تاہم پہلے مرحلہ میں صرف بڑی بڑی ٹرانزکشن کرنے والوں کو ہی نوٹس جاری کئے جائیں گے۔ یہ بات چ کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس دینے اور لینے والوں میں اعتماد کا فقدان ہے جسے دور کرنے کیلئے باہمی رابطوں کو بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے پوٹینشل ٹیکس دہندگان کو نوٹسوں کے ذریعے ہراساں کرنے کی بجائے انہیں خوشی سے ٹیکس نیٹ میں آنے کی ترغیب دی جائے گی اور اس سلسلہ میں دستیاب ڈیٹا کو استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان دراصل ترقی میں حکومت کے شراکت دار ہیں اِس لئے ہمیں ملکر حکومتی وسائل کو بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے باہمی اعتماد کے فقدان کے حوالے سے بتایا کہ اِس کی بڑی وجہ شفافیت اور محاسبے کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر مسلمان بخوشی حساب کر کے اپنے ذمہ کی زکوۃ ادا کرتا ہے کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ رقم صحیح جگہ پر خرچ ہو گی۔ اس کے برعکس انہیں ٹیکس دیتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ انھیں معلوم نہیں کہ یہ صحیح طور پر خرچ ہو گی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نہ دینے والے بھی اس معاشرہ کا حصہ ہیں ہم انھیں ترغیب دیں گے کہ وہ رضاکارانہ طور پر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے گی۔ اگر کسی شخص نے 5کروڑ کی گاڑی خریدی ہے اور وہ ٹیکس بھی نہیں دے رہا تو پھر اسے ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے یہ گاڑی غیر ملکی زرمبادلہ یا زراعت کی ٹیکس فری آمدن سے خریدی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کو سسٹم سے باہر نوٹس نہیں جائے گا اور سسٹم سے صرف بار کوڈ والے نوٹس ہی جاری ہو ں گے۔ انہوں نے کہا کہ پوٹینشل ٹیکس دہندگان خود تشخصی نظام کے تحت ریٹرن فائل کریں اور وہ جتنی آمدن ظاہر کریں گے اُس کو من و عن قبول کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی 1500ملین آبادی میں سے 500ملین ورکر ہیں اور اُن کی ٹیکس ریٹرن داخل کرانے کی شرح 60فیصد ہے اِس کے برعکس پاکستان کی 225ملین کی آبادی میں سے 4.5ملین ورکر ہیں مگر یہاں ٹیکس ریٹرن داخل کرانے والوں کی شرح انڈیا کے نصف سے بھی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ 10لاکھ سے کم آمدن والوں کو نوٹس نہیں بھیجیں گے اور اس اصول پر ملک بھر میں عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بد اعتمادی کی فضا میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس دراصل بزنس کا بائی پراڈکٹ ہے۔ بزنس سے لوگ جو کماتے ہیں اُس میں سے حکومت کچھ حصہ لیتی ہے تاکہ اِس کو دوبارہ کم آمدنی والے لوگوں پر خرچ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کا کام 99فیصد سہولت مہیا کرنا ہے جبکہ صرف ایک فیصد سے مجبوراً قانون کو نافذ کرانا پڑتا ہے۔ انہوں نے وصولیوں کے اہداف کے حوالے سے کہا کہ اِن کیلئے کوئی سائنسی اصول نہیں اور یہ صرف اندازے کی بنیاد پر مقرر کئے جاتے ہیں۔ اس میں بعض اوقات حالات کے پیش نظر اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ نئے ٹیکس دہندگان کیلئے وصولیوں کے الگ الگ اہداف کا ذکر کرتے ہوئے چیف کمشنر نے کہا کہ بظاہر ایک دوکان میں خریداری کی ریل پیل ہوتی ہے مگر اُن کے گوشواروں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ٹیکس کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ٹیکس کے اخفا کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بینکوں سمیت 10بڑے اداروں نے 90فیصد ٹیکس ادا کیا۔ ری فنڈ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ریجنل ٹیکس آفس نے ستمبر کے مہینے میں ساڑھے چار ارب کے ری فنڈ ادا کئے جبکہ ٹیکس وصولیاں اس سے نصف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ری فنڈ دراصل آپ لوگوں کا ہی پیسہ ہے اس سے آپ کو اپنا سرمایہ مل گیا جسے کاروبار میں لگا کر آپ ڈالر وطن لائیں گے اور اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فاسٹر نے ری فنڈ کے نظام کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں سیایک حصہ زیر التواء کیسوں کا ہوتا ہے جس کو نمٹانے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کمشنر کارپوریٹ زون سے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں الگ ملاقات کریں تاکہ اِن معاملات کو بھی نمٹایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سیل ٹیکس کی ری فنڈ دی جارہی ہے تاہم انکم ٹیکس کے ری فنڈ میں افسران محتاط ہوتے ہیں۔ سپر ٹیکس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں کیس اعلیٰ عدلیہ میں زیر التواء ہے تاہم وہ ایڈوانس ٹیکس کے ری فنڈ کے سلسلہ میں فراخدلی کا مظاہرہ کریں گے۔ زبیر بلال نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ فیصل آباد میں زیر التواء مستثنیٰ کیسوں کی شرح صفر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ادارے اب تک کسی وجہ سے استثنا ئی سر ٹیفکیٹ کیلئے درخواستیں نہیں دیتے انھیں بھی چاہیے کہ وہ درخواستیں دیں وہ اس سلسلہ میں اپنے سٹاف کو مقررہ وقت میں سر ٹیفکیٹ جاری کرنے کا پابند بنائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دستاویزی معیشت کے فروغ کیلئے ٹیکسوں اور ای پیمنٹ کے نظام کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے شق 235کے تحت بجلی کے بلوں میں استثنیٰ کے معاملات کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا یقین دلایا اور کہا کہ متعلقہ افراد کسی وقت بھی اُن سے مل سکتے ہیں۔ چیف کمشنر نے بتایا کہ فیصل آباد میں گزشتہ سال کی نسبت 20فیصد زیادہ گوشوارے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال ایک لاکھ 10ہزار گوشوارے آئے اِن میں سے 20ہزار نئے ٹیکس گزار تھے۔ اس کے برعکس اس سال ایک لاکھ 35ہزار گوشوارے داخل کرائے گئے جن میں سے 40ہزار نئے ٹیکس دہندگان ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 7-Eکے بارے میں بھی کیس زیر التواء ہے۔ تاہم وہ ٹیکس دہندگان سے بھائی چارے کو فروغ دینے کیلئے مختلف ایسوسی ایشنوں کا بھی دورہ کریں گے۔ اس سے قبل صدر ڈاکٹر خرم طارق نے فیصل آباد چیمبر آ ف کامرس اینڈانڈسٹری کا تعارف پیش کیا اور بتایا کہ 100سے زائد شعبوں سے تعلق رکھنے والے 8ہزار افراد اِس کے ممبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد چیمبر کو اس سال ٹیکس اناملی کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا جبکہ اس سے قبل یہ عہدہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر زآف کامرس اینڈانڈسٹری کے پاس تھا۔ انہوں نے ٹیکس دہندگان اور ٹیکس وصول کرنے والوں کے درمیان اعتماد کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ری فنڈ کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے پر بھی زور دیا تاکہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر اضافی بوجھ ڈالنے کے سلسلہ کو ختم کیا جا سکے۔ اِس موقع پر سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی جس میں نائب صدر حاجی محمد اسلم بھلی، رانا عامر، چوہدری محمد نواز، بلال طاہر، اعجاز شاہ، مقصود بٹ، حاجی محمد عابد اور سہیل بٹ نے حصہ لیا۔ آخر میں سینئرنائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جبکہ صدر ڈاکٹر خرم طارق نے چیف کمشنر زبیر بلال کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کی اعزازی شیلڈ پیش کی۔