ساہیوال، 01 نومبر(اے پی پی):ذہنی طور پر کمزور(آٹزم کا شکار)بچوں کی، سپیشل بچوں کے اولمپکس میں شرکت کے لیے آگاہی سیمینار ای لائبریری ساہیوال میں منعقد ہوا جس میں مہمان خصوصی ڈی آئی جی جیل خانہ جات شوکت فیروز ،اسسٹنٹ کمشنر جنرل علیزہ ریحان ، انچارج اولڈ ایج ہوم رانا ارشاد محسن سمیت ا سپیشل اولمپکس پاکستان کی نمائندہ نزہت رباب عسکری، راؤمحمدعتیق ودیگر نے شرکت کی،تقریب کی آرگنائزر ساہیوال کی معروف سوشل ورکر سدرہ نعیم تھیں۔
مہمان خصوصی حضرات نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آٹزم میں مبتلابچے کو عام طور پر معاشرہ بوجھ سمجھتا ہے اور اگر وہی بوجھ ماں باپ خاندان اور ملک کے لیے باعث عزت بن جائے تو اس سے بڑھ کر خوشی کا اور کوئی مقام نہیں ہو سکتا ہمارے علاقے میں تو جاہلیت کا شکار ان بچوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کو زنجیروں سے باندھا جاتا ہے،حیوانوں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔
ساہیوال شہر میں سدرہ نعیم آٹزم میں مبتلا بچوں کے لئے کئی پراجیکٹ پر کام کررہی ہیں ان بچوں کو کار آمد بنانے میں معاون نجی سکول بھی چلا رہی ہیں جہاں آٹزم کا شکار بچوں کے ذہنی رجحان کے مطابق جدید سائنسی بنیادوں پر ان کو معاشرے کے لیے کار آمد شہری بنایا جاتا ہے یہ تقریب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
نمائندہ پاکستان نزہت رباب عسکری نے حاضرین کو بتایا کہ عالمی سطح پر تین قسم کی اولمپکس کا انعقاد ہوتا ہے جن میں پیرا اولمپکس جو جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے، اولمپکس جو نارمل صحت مند کھلاڑیوں کے لیے اوراسپیشل اولمپکس جو ذہنی طور پر کمزور (آٹزم کا شکار) کھلاڑیوں کے لیے منعقد ہوتی ہے اور کہا کہ تقریب کا مقصد یہ ہے کہ ساہیوال سے بھی ایسے کھلاڑیوں کو عالمی سطح پر مقابلوں کے لیے تیار کیا جائے جس کے لیے ذہنی کمزوری میں مبتلا (آرٹزم ) اسپیشل بچوں کے والدین، نجی و سرکاری سکولوں کو دعوت دی جاتی ہے یہ کھلاڑی بچے شہر ضلع،صوبہ،قومی سطح پر مقابلہ جات میں حصہ لیں گے اور پھر ان کو اسپیشل اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے بھیجا جائے گا،اولمپکس میں ٹیبل ٹینس،سوئمنگ،فٹ بال سمیت 12 سے 15 کھیلوں کی مختلف کیٹگری میں حصہ لیا جا سکتا ہے،سپیشل اولمپکس کی ایک کھلاڑی جو سندھ کے دور افتادہ علاقےسے تعلق رکھتی ہےاس کو ذہنی کمزوری کی وجہ سے اس کے والدین نے زنجیروں سے باندھا ہوا تھا اس نے زنجیروں سے آزاد ہونے کے بعد مقابلوں میں حصہ لیا اور اسپیشل اولمکپس کے بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل حاصل کیے اس کھلاڑی کی سٹوری آسکر کے لیے بھی نامزد ہو چکی ہے۔ سدرہ نعیم ساہیوال و گردنواح کے لیے ایک نعمت ہیں میں نے بذات خود ان کے سکول کے بچوں کا مشاہدہ کیا ہے کہ ابتدا میں جو بچے بولتے نہیں تھے،اپنے جذبات کااظہارنہیں کر سکتےتھے، غصیلےتھے،اپنے حوائج ضروری کا بھی نہیں پتا تھا، ایسے بچاں میں سکول میں داخلے کے بعد بہت تبدیلی آگئی ہے،بچے پڑھنا لکھنا،کھیلنا،اپنے جذبات کا اظہار کرنا بھی سیکھ رہے اور ان شاءاللہ معاشرے کے بوجھ کی بجائے کارآمد شہری بنیں گے۔سدرہ نعیم نے خطاب کرتے ہوئے استدعا کی کہ آپ کے آس پاس کوئی ایسا بچہ ہے تو اسے ان اداروں تک رسائی کروائیں یقیناً یہ نیک عمل آپ کے لئے راہ نجات ہوگا۔