لاہور، 16 مارچ (اے پی پی): داستان گوئی یا قصہ خوانی، یہ ایک صدیوں پرانی روایت ہے جسے دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ اسے قصے ،کہانیاں بہت مرغوب ہیں۔ وہ سننا بھی چاہتا ہے اور سنانا بھی چاہتا ہے۔
اردو زبان و ادب میں داستان گوئی ایک ایسا صنف ہے جس کی ابتدا سولہویں صدی میں ہوئی۔ 1857 کے بعد ہندوستان میں قصہ گوئی کا فن عروج پر رہا۔ قصہ گوئی میں امیر حمزہ اور میر باقر علی کا نام سرے فہرست رہا۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں کے محلوں، میلوں اور بازاروں میں لوگوں کی تفریح کیلئے مختلف داستانیں سنائی جاتی تھیں۔ داستان گو اپنی آواز سے ایسا طلسم باندھتا اور اپنے “بھاؤ”سے وہ ایسی دنیا تخلیق کرتا کہ گویا سامعین اس واقعے کو دیکھ رہے ہیں یا وہ مانو خود اس کا حصہ ہیں۔
والڈ سٹیز اینڈ ہیریٹج ایریاز اتھارٹی صدیوں پرانی داستان گوئی کی اس صنف کو زندہ کرنے کیلئے بھرپور کاوشیں کررہا ہے۔ نئی نسل کو اس صنف اور لاہور کی تاریخ سے روشناس کروانے کیلئے ایک تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا۔
تقریب میں مشہور داستان گو بدر خاں نے داستان شہر لاہور سے لوگوں کو روشناس کرایا اور اس صنف کو بھی اُجاگر کیا۔ اس صنف کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے جدید داستان گووں نے روایتی داستانوں کے ساتھ کچھ جدید داستانیں بھی بنائیں جو آج کے حالات سے مطابقت رکھتی ہیں اور ان عکاسی بھی کرتی ہیں ۔
داستان گو بدر خاں نے کہا یہ صدیوں پرانی روایت ہے جوکہ دوبارہ زندہ ہو رہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی روایات کو دوبارہ زندہ کرنا نئی نسل کے لیے بہت ضروری ہے تاکہ ان روایات کو دیکھیں اس سے سیکھیں۔ لوگوں نے کہا کہ اس داستان گوئی سے ہم نے لاہور کے کلچر کو سیکھا ہے اور ہم نے ایک نئے کلچر کو دیکھا ہے۔ داستان گوئی سے متعلق مرزا اسد اللہ خاں غالب کا خیال ہے کہ “داستان طرازی من جملہ فنون سخن ہے، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے”۔