جدہ،14 اپریل(اے پی پی ):نریندر مودی کی جانب سے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کا اعلان آرٹیکل 370 کی خلاف ورزی ہے‘ جسے مودی سرکار نے 5 اگست 2019ء کو ختم کرکے جموں و کشمیر کو بھارتی سٹیٹ یونین میں شامل کرلیا تھا۔ بھارت کے اس غیرقانونی اقدام پر عالمی سطح پر تحفظات سامنے آئے سلامتی کونسل نے چین کے دباؤ پر ہی یکے بعد دیگرے تین ہنگامی اجلاسوں کا ڈرامہ رچاکر پاکستان سمیت کشمیری عوام اور دنیا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی یہ اجلاس نہایت غیر سنجیدہ تھے جہاں بھارت سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیشیت بحال کرنے کیلئے نہیں بلکہ مذمت کی گئیں۔ جبکہ بھارت موٹی چمڑی کا ہے اسے مذمتوں سے کوئی اثر نہیں پڑتا یہ بات جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور حریت کانفرنس کے سابق سربراہ محمد فاروق رحمانی نے جدہ میں کشمیری تنظیموں کے اراکین سے بات کرتے ہوئے کی۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین مسلمانوں کا مذہبی مسئلہ ہے وہاں ہمار ا قبلہ اول ہے اور کشمیر کی آزادی ہمارا حق ہے دونوں ہی مشکلات کا شکار ہیں ایک طرف یہودی دوسری جانب ہندو اس پر قابض ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے کے ساجھے دار ہیں کہ مسلمانوں پر کس طرح ظلم کیا جائے؟۔
فاروق رحمانی نے کہا کہ کشمیر پر قابض ہوکر مودی سرکار نے اس کو ایک بھارتی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے وہاں انہوں نے 1500 تعلیمی ادارے قائم کیئے ہیں جہاں کشمیر کی آزادی کے خلاف تعلیم دی جاتی ہے، بے شمار ہندوؤں کو وہاں آباد کیا گیا ہے اور انہیں کاروبارپر کاروبار کرایا جارہا ہے۔ بھارت کے حوصلے اتنے بلند ہو چکے ہیں کہ اب مودی سرکار کے جموں و کشمیر کو بھارتی ریاست کا درجہ دینے کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ مودی سرکار کے جتنے حوصلے بلند ہو چکے ہیں‘ کوئی بعید نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جموں و کشمیر کو بھارتی ریاست کا درجہ دے ڈالے۔ نریندر مودی اپنے اقتدار کے 10 سال میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی ترقی کو پوری فلم کا ٹریلر قرار دے رہے ہیں اور اگلے چند سال میں بہت کچھ تبدیل کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی قالب میں ڈھالنے میں کسی عالمی دباؤ یا رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ اس لئے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو مودی کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے نہ صرف موثر انداز میں بند باندھنا چاہیے بلکہ فوری طور پر اس ہٹ دھرمی کا نوٹس بھی لینا چاہیے اور اپنے چارٹر کے مطابق منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے پائیدار حل کیلئے بھارت پر دباؤڈالنا چاہیے جس کا تقاضا اخلاقی اور سفارتی سطح پر پاکستان بھی گزشتہ 76 سال سے کرتا چلا آرہا ہے۔