فیصل آباد، 23 مئی (اے پی پی):فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر ڈاکٹر خرم طارق نے کہا ہے کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بجلی کے ٹیرف میں خاطر خواہ کمی ہو گی۔
یہ بات فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر ڈاکٹر خرم طارق نے پری بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ صنعتکار سبسڈی نہیں مانگتے لیکن وہ دوسروں کو بھی سبسڈی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 60فیصد لائف لائن کنزیومرز کو صنعتکار 245 ارب روپے کی کراس سبسڈی دے رہے ہیں اور اگر اس سلسلہ کو روکا نہ گیا تو صنعتیں بتدریج بند ہو جائیں گی اور حکومت ملنے والے موجودہ ٹیکسوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ انہوں نے مختلف صوبوں کیلئے گیس کی مختلف قیمتوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ جب ایسے وسائل کم ہوتے ہیں تو حکومت ان کو زیادہ اکنامک ویلیو والے شعبوں کیلئے استعمال کرتی ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا۔
ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ پورے ملک اور ہر شعبہ کیلئے گیس کی یکساں قیمت ہونی چاہیے۔ پالیسی ریٹ کے بارے میں انہوں نے مہنگائی کو کاسٹ پش( (Cost push Inflation قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ پوری دنیا کی طرح اِس کو Core Inflationسے منسلک کیا جائے۔ انہوں نے بھاری ٹرن اوور والے شعبوں کیلئے سیل ٹیکس رجسٹریشن کی مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ اِن کو فکس رجیم میں شامل کیا جائے تاکہ حکومت کو پہلے سے زیادہ ٹیکس مل سکے۔ ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ ایس ایم ای سیکٹر کا بُرا حال ہے۔ اس سیکٹر سے متعلق 26فیصد ادارے بند ہو چکے ہیں جو برآمدات میں 20سے 25فیصد تک کا حصہ ڈال رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبہ کو پرانی مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی جائے۔
ڈاکٹر خرم طارق نے برآمدات میں خصوصی دلچسپی لینے پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اس بارے میں ہر 15روز بعد میٹنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نے DLTL کے پرانے کلیم ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے 100 ارب ڈالر کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اگر برآمد کنندگان کے سیلز ٹیکس کے ری فنڈ اور ری بیٹ فوری ادا کر دیئے جائیں تو وہ اِن مواقعوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کبھی نئے ٹیکسوں کی بات نہیں کرتا۔ اُس کا زور مالیاتی نظم و ضبط پر ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خرم طارق نے کہا کہ وہ بجلی کے ریٹ بڑھانے کی بات نہیں کرتا بلکہ اُس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کو روکا جائے۔ اِس میں اضافہ کی دو وجوہات ہیں ایک بجلی چوری اور دوسرا بل ادا نہ کرنا۔ جب حکومتی ادارے یہ نہیں کر سکتے تو پھر وہ اِس فرق کو بجلی استعمال کرنے والے ذمہ دار صارفین پر ڈال دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی 4تقسیم کار کمپنیاں باقی تمام ڈسکوز کا بل ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے سمگلنگ نہ روکنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر این ٹی این نمبر لینے والوں کی تعداد کو تو ظاہر کرتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ پہلے سے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کتنا ٹیکس دے رہے ہیں اور نئے ٹیکس دہندگان نے کتنا ٹیکس دیا ہے۔
سینئر نائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد نے کہا کہ بلا سوچے سمجھے زرعی پیداوار بڑھانے پر توجہ دی گئی جس سے ضرورت سے زیادہ پیداوار ہوئی اور اُس کا براہ راست نقصان کاشتکاروں کو ہوا۔ حالانکہ اس مقصد کیلئے پہلے اِن اشیاء کی ویلیو ایڈیشن پر توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فاضل پیداوار کی وجہ سے چاول، کپاس، گندم اور مکئی پیدا کرنے والا ہر کسان پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال سے سویابین کی درآمد کی بھی باتیں ہو رہی ہیں مگر یہ سرخ فیتے کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی نے ورکر ز ویلفیئر فنڈ کے تحت 2019ء کے نوٹس بھیجنے شروع کر دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے کاروباری حالات کو بہتر نہ کیا تو کاروباری لوگ اور تاجر بیرون ملک منتقل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ آخر میں نائب صدر حاجی محمد اسلم بھلی نے صحافیوں کا شکریہ ادا کیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ کاروباری افراد کے مسائل بھر پور طریقے سے حکومتی ایوانوں تک پہنچائیں گے۔