اسلام آباد، 29 مئی ( اے پی پی): ملک کو درپیش توانائی مسائل سے نکالنے اور معاشی طور مستحکم کرنے والے تھر کے کوئلے کو جیولوجیکل سروے نے 1980 میں دریافت کیا، جس کے بعد 2009 میں اینگرو انرجی لمیٹڈ اور حکومت سندھ نے نئے سفر کی شروعات کی اور ایک سال کے مختصر عرصہ 2010 میں منصوبے کی فزیبلٹی اور دیگر مراحل کو حتمی شکل دی گئی جس کے تحت 2011 میں سندھ اینگرو کیمیکل مائننگ کمپنی (SECMC) کو بلاک 2 کی 30 سالہ لیز دی گئی۔ اس کے بعد سال 2013 میں حکومت پاکستان نے اس منصوبے کے لیے خودمختار گارنٹی دی جس کے بعد 2014 میں کوئلے کی کان کنی اور بجلی کے منصوبے کو سی پیک میں شامل کیا گیا اور 2016 میں سالانہ 3.8 ملین ٹن کوئلہ نکالنے کے معاملات طے کیے گئے۔ 2019 میں پہلا مرحلہ مکمل ہوا، کوئلے کی پیداوار شروع ہوئی، 2019 کے آخر میں کوئلے کی پیداوار 3.8 ملین ٹن سالانہ سے بڑھا کر 7.8 ملین ٹن سالانہ کرنے کی منظوری دی گئی۔ سال 2021 میں منصوبے کے تیسرے توسیعی مرحلے کے لیے منظوری دی گئی، جس سے پیداوار 7.8 ملین ٹن سے بڑھ کر 11.4 ملین ٹن سالانہ ہو گئی۔ اس وقت تھر میں کوئلے کے بلاک 2 سے تقریباً 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے، بلاک ون میں چین کی شنگھائی الیکٹرک کمپنی بھی 1320 میگاواٹ کے قریب بجلی پیدا کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق تھرکول کے ذخائر سے 200 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔