داخلی سلامتی پر اثر انداز ہونے والے خارجی عوامل پر ازسر نو غور کر کے دانش مندانہ حکمت عملی تیار کی جائے ، صدر مملکت کا نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں خطاب

542

اسلام آباد، اکتوبر ۳۱(ا پ پ):صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ داخلی سلامتی پر اثر انداز ہونے والے خارجی عوامل پر ازسر نو غور کر کے دانش مندانہ حکمت عملی تیار کی جائے کیونکہ کشمیر ، بھارت، افغانستان، ایران ، مشرق وسطیٰ اور چین کی صورتِ حال براہ راست ہماری داخلی سلامتی کے معاملات پر اثر انداز ہوتی ہے۔
صدر مملکت نے یہ بات جمعہ کونیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ورکشاپ میں اراکینِ پارلیمنٹ، اعلیٰ سول و فوجی حکام اور سول سوسائٹی کے افراد شریک تھے۔ صدر مملکت نے اس موقع پر ورکشاپ کے شرکا میں سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کے۔
صدر مملکت نے ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے چیلنجزسے نمٹنے کے لیے قوم نے جان و مال اور ادارہ جاتی سطحوں پر بہت نقصانات اٹھائے ہیں لیکن اس جنگ میں ہماری کامیابی بھی غیر معمولی ہے جس کے لیے ہمارے سول وملٹری کے جانبازوں کے علاوہ سیاسی اور غیرسیاسی لوگوں نے بھی بیش بہا قربانیاں دی ہیں جس پریہ تمام افراد اور ادارے خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ داخلہ پالیسی کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے بعض پہلوو¿ں کا احتیاط سے جائزہ لے کر ان کی اصلاح کی جائے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ تین عشروں کے دوران میں نہایت تیزرفتاری کے ساتھ تبدیلیاں ر±ونما ہوئیں جن کے ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی معاملات پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔یہ صورتِ حال وسیع پیمانے پر علمی اور عملی اقدامات کی متقاضی تھی لیکن متعلقہ حلقے ان کی نوعیت کو سمجھ کرکوئی مناسب حکمتِ عملی تیار نہ کر پائے جس کے نتیجے میں بعض عناصر گمراہی پر مبنی بیانیہ معاشرے میں پھیلانے میں کامیاب ہو گئے، یوں مذہب اور انتہا پسندی کو ایک ہی نظر سے دیکھا جانے لگا۔انھوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ نے ان معاملات میں انفرادی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں ابھی مزید گنجائش باقی ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ ملک کے بعض حصوں، خاص طور پر بڑے اربن سنٹرز میں سماج دشمن عناصر نے منظم جرائم کو فروغ دیا جس سے ان شہروں سمیت ملک بھر کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی زندگی متاثر ہوئی۔ اس طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پورے معاشرے کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی اور اگر ضروری سمجھا جائے تو قانونی ڈھانچے کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کی مخصوص صورتحال میں تعلیمی نظام اور نصاب کو نہایت ٹھوس بنیادوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ صحت اور روز گار کے شعبوں کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں میں بہتری لانی ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ملک و ملت کی تنظیم نو کے لیے پوری قوم اور اس کے تمام اداروں کو پوری ذہنی یکسوئی اور آمادگی کے ساتھ اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی کیونکہ اس طرح کے کام کسی طبقے یا مکتب? فکر کو نظر انداز کر کے انجام نہیں دیے جا سکتے۔صدر مملکت نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مختلف مواقع پر ا ن مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے گئے لیکن ہمیں جتنے بڑے اور ہمہ گیر چیلنج درپیش ہیں ، اس کے مقابلے میں ان میں مزید وسعت، جامعیت اور ہمہ گیریت لانا ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جس کے تحت شدت پسندوں اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کثیرالجہتی پالیسی ترتیب دی گئی۔ اب ضروری ہے کہ اس پلان کی کامیابی کے لیے تما م وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
اس موقع پر این ڈی یو کے قائم مقام صدر میجر جنرل سمریز سالک نے بھی خطاب کیا جبکہ سینیٹر روبینہ خالد، رکن پنجاب اسمبلی شہر یار ملک اور سول سوسائٹی کے نمائندے عامر درانی نے ورکشاپ کی سفارشات سے سامعین کو آگاہ کیا۔
اے پی پی حمزہ/فرح ا ن م