اسلام آباد ، جون 5(اے پی پی): وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے یہ انفرادی نہیں عالمی مسئلہ ہے۔پاکستان کاشمارموسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں ہوتاہے اور حکومت موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کےلئے اقدامات کررہی ہے۔رومینہ خورشید عالم نے بدھ کے روز اے پی پی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پانی کے شدید بحران میں مبتلا ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پانی کے بحران کے باعث شعبہ زراعت بری طرح متاثر ہو رہا اور خوراک کی کمی کا بحران مزید پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری سمیت ، تحقیق اور ملک میں جدید نظام آبپاشی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان لیونگ انڈس انیشی ایٹو منصوبہ پر عمل درآمد کر رہا ہے ۔جو دریائے سندھ اور اس کے آس پاس کے ماحولیاتی نظام کی بحالی اور بحالی کی کوشش کرتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ زرعی زمینوں کو خشک سالی سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے مستقل بنیادوں پر پالیسی کی ضرورت ہے، پاکستان زرعی خشک حالی کی روک تھام کےلئے پُرعزم ہے، ریسائیکلنگ اور ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کے لئے اس معاملے پر عوامی سطح پر اگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا پاکستان میں پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کو روکنے پر مربوط پالیسی پر کام رہا ہے اس امر میں ملک بھر سے مرحلہ وار پلاسٹک کے روز مرہ استعمال جس میں شاپنگ بیگ، یک دفعہ استعمال کی بوتلیں اور دیگر اشیاء پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔کیونکہ پلاسٹک کے استعمال زمین کا گِلا کھونٹے کے مترادف ہے اور اس پر جامع و مربوط پالیساں بنا رہے ہیں۔رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ بدقسمتی سے، انسانی سرگرمیاں اوزون کی تہہ کے خاتمے کا باعث بنی ہیں، جس کے نتیجے میں اوزون سوراخ میں وسعت آ رہی ہے اور شدید خطرات لاحق تھے۔ تاہم یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اقوام متحدہ کے ویانا کنونشن اور اس کے مونٹریال پروٹوکول کی چھتری کے تحت، عالمی کوششیں اوزون کے سوراخ کو زیادہ سے زیادہ حد تک بحال کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
انہوں نے مزید کہا، پاکستان نے 2009 تک اوزون کو ختم کرنے والے مادوں کی پہلی جنریشں کو مرحلہ وار ختم کیا، اور جنوری 2020 تک ایچ سی ایف سی میں 50 فیصد کمی حاصل کی۔ ہم 2025 تک 67.5 فیصد کمی کے ہدف کی طرف کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔