قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر عام بحث جاری

17

اسلام آباد۔24جون  (اے پی پی):قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر عام بحث پیر کو بھی جاری رہی، اس دوران اراکین نے مشکل حالات میں بجٹ کو متوازن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، تعلیم اور صحت کیلئے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کیلئے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر بات چیت کی جائے ۔

پیر کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 25-2024ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن ملک ابرار نے کہا کہ تمام ترمشکلات کے باوجود وزیراعظم اوران کی ٹیم نے عوام دوست بجٹ دیاہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن اور کم سے کم ماہانہ تنخواہ کی مد میں اضافہ کیا گیا ہےجو خوش آئند ہے۔

پی پی پی کے صادق علی میمن نے کہاکہ  انہوں نے کہاکہ معاشرے کے کمزور طبقات کو معاونت فراہم کیلئے بی آئی ایس پی کے فنڈز میں اضافہ ایک اچھی پیش رفت ہے، معذور افراد کیلئے سہولیات میں اضافہ ہونا چاہئے، بجٹ میں کم ترقی یافتہ علاقوں کیلئے مساوی ترقی کے منصوبے شامل نہیں ہیں۔زراعت کاشعبہ جی ڈی پی کا 23 فیصدسے زیادہ بنتاہے اور37فیصد ملازمتیں فراہم کر رہا ہے مگر اس شعبہ کیلئے کوئی خاص مراعات نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ کراچی میں پانی، شاہراہوں اور منشیات کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ ادویات پرٹیکس واپس لیا جائے۔ بجٹ میں خواتین کے کاروبارکے فروغ کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

سنی اتحاد کونسل کے رکن عاطف خان نے کہا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کی بنیادی وجہ برآمدات کی کمی اور درآمدات کی زیادتی ہے، ہمیں برآمدات بڑھانا ہوگی ۔

جمعیت علما اسلام کے رکن مولانا مصباح الدین نے کہا کہ  دریائے ٹوچی پر پختہ حفاظتی پشتے بنائے جائیں۔  پیپلز پارٹی کے رکن شبیر علی بجارانی نے کہا  امن و امان، زراعت، تعلیم اور صحت کے لئے زیادہ بجٹ مختص کیا جانا چاہیے تھا۔

استحکام پاکستان پارٹی کے رکن غلام اصغر خان نے کہا کہ مشکل حالات میں متوازن بجٹ پیش کرنے پر فنانس ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔تاریخ میں پہلی بار اشرافیہ پر ٹیکس لگایاگیا۔سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کرنے والوں پر ٹیکس لگایاگیا۔ہائی برڈ گاڑیوں پر ٹیکس لگایا گیا۔سرکاری ملازمین کو سیلری میں 25 فیصد اضافہ کیاگیا۔سولر پینلز پر سبسڈی دی گئی۔ مسلم لیگ ن کے رکن رانا حیات نے کہا کہ 2018 میں آر ٹی ایس بٹھایا گیا میرے 8600 ووٹ مسترد کرکے 200 کے قریب ووٹوں سے ہرایا گیا۔آج ان کی زبان فارم 47 کہتے نہیں تھکتی، مہنگائی کے ردعمل میں پڑنے والے ووٹ کو عمران خان کی مقبولیت سے نہ جوڑا جائے۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رکن خواجہ اظہار الحسن نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ایوان کو رولز کے مطابق چلایا جائے۔اس ایوان میں پی ٹی آئی نام کی کوئی جماعت نہیں ہے،سنی اتحاد کونسل کا نام لیا جاسکتا ہے۔کسی اجنبی جماعت کانام نہ لیاجائے۔

مسلم لیگ ن کے رکن دانیال چوہدری نے کہا کہ یہ ایک زخمی ملک کا بجٹ ہے جو اپوزیشن نے چار سال میں دیئے۔ اپوزیشن نے بجٹ پر بات نہیں کی ذاتیات کی سیاست کرتے ہیں، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس ان لوگوں کی وجہ سے جانا پڑا، ہم نے بجٹ میں غریب کی بات کی، تنخواہ دار طبقہ کو ریلیف دیا گیا۔ہم نے 2018 کی زیادتی کے بعد بھی میثاق معیشت کی بات کی، یہ کبھی سنجیدہ رہے ہی نہیں۔