پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہاریہ مکئی کی فی ایکڑ پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے؛ڈاکٹر ساجد الرحمن

18

فیصل آباد،10جولائی (اے پی پی ): چیف  سائنس دان،ڈاکٹر ساجد الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہاریہ مکئی کی فی ایکڑ پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ان خیالات کا اظہار چیف  سائنس دان،ڈاکٹر ساجد الرحمن نے  ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد میں شعبہ اگرانومی کے تحت مکئی کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے موضوع پر سٹیک ہولڈرز کی تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر ساجد الرحمن نے کہا کہ ایو ب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے زیر انتظام 26ادارے اور آئی ایس او سرٹیفائیڈ لیبارٹریز میں زرعی سائنسدان 100 سے زائد فصلوں پر تحقیقی کاوشوں میں مصروف ہیں۔پنجاب میں 30  لاکھ ایکڑ سے زائد ایکڑ رقبہ پر مکئی کی کاشت ہوتی ہے،مکئی کی ہائبرڈ اقسام 160سے 170 من فی ایکڑ پیداوار دینے کی صلاحیت کی حامل ہیں۔ پنجاب میں مکئی کی اوسط پیداوار 60من فی ایکڑ کے مقابلہ میں ترقی پسند کاشتکار 130سے140من فی ایکڑ پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ زرعی سائنسدان وفیلڈافسران کو اس پیداواری گیپ میں کمی کے لئے زرعی تحقیقی کاوشوں کو تیز کریں۔

اس تربیتی ورکشاپ میں چیف  سائنس دان ڈاکٹر عزیز الرحمن، چیف  سائنس دان،ڈاکٹر نوید احمد صدیقی،چیف  سائنس دان، ڈاکٹر محمد ظفر، پرنسپل  سائنس دان، ڈاکٹر محمد شعیب،پرنسپل  سائنس دان،زرعی تحقیقاتی ادارہ مکئی جوار باجرہ، ساہیوال،احسن رضاملہی،پرنسپل  سائنس دان،ڈاکٹر محمد رفیق کاہلوں اورمحمد اسحاق لاشاری،ڈپٹی ڈائریکٹر شعبہ ایگری کلچرل انفارمیشن، آری، فیصل آباد کے علاوہ زرعی سائنسدانوں، نجی کپمنیوں کے نمائندگان، کاشتکاروں اور شعبہ اڈاپٹیو ریسرچ کے فیلڈ ماہرین نے شرکت کی۔

ڈاکٹر نوید احمد صدیقی نے تربیتی ورکشاپ میں شریک ہونے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں گندم اور چاول کے بعد مکئی سب سے زیادہ رقبہ پر کاشت ہونے والی اہم غذائی فصل ہے۔ پاکستان میں مکئی کا زیادہ تر حصہ مرغیوں کی خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے نشاستہ، خوردنی تیل، گلوکوز، کسٹرڈ، جیلی اور کارن فلیکس وغیرہ بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ مکئی سے مختلف مصنوعات بنانے والی فیکٹریاں زیادہ تر لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد،ملتان، ساہیوال، رحیم یار خان اور راولپنڈی میں واقع ہیں۔

ڈاکٹر محمد شعیب نے اس تربیتی ورکشاپ میں تفصیلی لیکچر دیتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ سالوں میں ترقی دادہ ہائبرڈ اقسام کی ترویج اور بہتر پیداواری ٹیکنالوجی کے استعمال سے مکئی کی فصل کاشتکاروں کے لئے ایک منافع بخش فصل بن گئی ہے جس کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں اس کے زیر کاشت رقبہ اور پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کاشتکاروں پر زو دیا کہ زرعی سائنسدانوں کے تجربات کے نتائج سے مستفید ہونے کے لئے بہاریہ مکئی کی کاشت جنوری کے آخری ہفتہ سے فروری کے پہلے عشرہ میں جبکہ موسمی مکئی کی کاشت 20جولائی سے 15اگست تک مکمل کریں۔ مکئی کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے لئے کاشتکار زرخیز زمین کا انتخاب، زمین کی بہتر طریقے سے تیاری، کھیلیوں پر کاشت، جڑی بوٹیوں کی بروقت تلفی، آبپاشی و کھادوں کے متوازن استعمال، نقصان رساں کیڑوں کے بروقت انسداد اور بیماریوں کے کنٹرول کے لئے فیلڈ افسران عملہ کی سفارشات پر عمل کریں۔

انہوں نے مزید بتایاکہ چائنا، کوریا، ویت نام اور سری لنکا میں پاکستانی اعلی کوالٹی کی حامل مکئی کی بہتر ڈیمانڈ موجود ہے۔ کاشتکار مکئی کی نہ صرف پیدارو میں اضافہ کریں بلکہ پوسٹ ہارویسٹ لاسز میں کمی کے علاوہ افلاٹوکسن سے پاک مکئی کی محفوظ ذخیرہ کاری کو یقینی بنائیں۔