اسلام آباد،31جولائی (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیروگلگت بلتستان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کا الگ الگ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، کمیٹی نے وزیر امور کشمیر کی اجلاس میں غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیروگلگت بلتستان کا اجلاس چیئرمین کمیٹی پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں وزات امور کشمیر وگلگت بلتستان کے کام کے طریقہ کار و کارکردگی کے امور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر پروفیسر ساجد میر اوراراکین کمیٹی نے وفاقی وزیر برائے امور و کشمیر کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سا بقہ قائمہ کمیٹی برائے امور و کشمیر نے اپنے 28فروری کو منعقدہ اجلاس میں متعلقہ وفاقی وزیر کی عدم شرکت اور وزارت کے اعلیٰ حکام کے غیر سنجیدہ رویے پر برہمی کا اظہار کیا تھا ،قومی تقریب کا بہانہ بنا کر کمیٹی اجلاس کی تاریخ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی اور قائمہ کمیٹی کے آزاد جموں کشمیر کے دورے کے حوالے سے بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔
سیکرٹری وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ یہ وزارت چھوٹی سی ہے اور اس کے نیچے پانچ ادارے کام کررہے ہیں ،وزارت امور کشمیر کا بجٹ 1388.77ملین روپے ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس سال وزارت امور کشمیر کا پی ایس ڈی پی میں کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں ہے،وزارت امور کشمیر کا بنیادی کام گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کےلئے پالیسی اور پلاننگ کی تشکیل ہے ،گلگت بلتستان کےلئے فنڈز وفاق سے گرانٹ کی صورت میں ملتے ہیں ، پی ایس ڈی پی کےلئے سو فیصد پیسہ وفاق دیتا ہے ،اے ڈی پی کا بڑا حصہ بھی وفاقی حکومت کا ہے،اس لئے وزارت کمیٹی کی رہنمائی بھی درکار ہے کہ مانیٹرنگ کا اختیار وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان کے پاس ہونا چاہئے ۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ گلگت بلتستان کا اپنا کوئی آمدن کا ذریعہ نہیں ہے گلگت بلتستان میں ٹیکسز بھی نہیں ہیں آج کل بھی گندم 20روپے کلو ملتی ہے۔ گلگت بلتستان کونسل اور آزاد کشمیر کونسل کا مقصد وفاق اور دونوں علاقوں میں روابط بڑھانا ہے، گلگت بلتستان کے لوگوں کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے ،این ایف سی کے تحت 240ارب کا حصہ مانگتے ہیں۔
قائمہ کمیٹی کو آزاد کشمیر کونسل اور گلگت بلتستان کے فنکشنز بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا ۔ سینیٹر ندیم بھٹونے کہا کہ دنیا میں سیاحت کے شعبے سے بہت سی آمدن ہوتی ہے ،پاکستان قدرتی مناظر کی دولت سے مالا مال ہے ،موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے،سیاحت سے متعلق ایک الگ اجلاس ہونا چاہئے۔چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے غیر قانونی تسلط اور ظلم جاری رکھنے کےلئے بہت زیادہ خرچ کرتا ہے، اس کو گلگت بلتستان کے لوگ دیکھتے ہیں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کی دلجوئی کےلئے بجٹ میں زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے ۔
سیکرٹر ی وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کونسلز لیجسلیٹو ادارے ہیں ،وزیراعظم دونوں کونسلز کے سربراہ ہیں،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں قوانین کے نفاذ،فورسز کی تعیناتی اور ہنگامی صورتحال کے اعلان کیلئے وزارت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔چیئرمین قائمہ کمیٹی پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ کشمیر ایشو کو کمیٹی اپنے اختیار سے باہر نہیں سمجھتی ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومتوں کا وجود ضروری ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اب گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں منصوبوں کو فائنل کرتی ہیں،گلگت بلتستان میں سیاحت سمیت معدنیات میں بھی وسیع مواقع ہیں۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گلگت بلتستان میں وزارت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے ،صرف تعاون کرتے ہیں ۔قائمہ کمیٹی نے گلگت بلتستان کے ترقیاتی کے منصوبوں کا علیحدہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ۔
اراکین کمیٹی نے کہا کہ گلگت بلتستان کےلئے کتنا بجٹ طلب کیا تھا اور کتنا فراہم کیا گیا ہے ۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ آزاد جموں کشمیر کونسل کے تمام ممبران منتخب ہو چکے ہیں اگر ان ممبران میں سے بھی کچھ ممبران کو کمیٹی اجلاس میں دعوت دی جائے تو ان کے علاقوں کے مسائل موثر طور پر اجاگر ہوں گے ۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ گلگت بلتستان کی کل آبادی 17لاکھ کے قریب ہے جن کےلئے حکومت ان کو 140ارب روپے کا فنڈ دیتی ہے جب کہ آزاد جموں کشمیر کی کل آبادی 42لاکھ ہے ۔سینیٹر حامد خان نے کہا کہ جی بی کوپانچویں صوبے کا درجہ دیا جائے،پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے بھی یہ بہتر ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ قومی ایشو ہے اس کو توجہ کی ضرورت ہے۔
اجلاس میں سینیٹرز ندیم احمد بھٹو ،دوست محمد خان،فلک نازاور حامد خان کے علاوہ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان ،سیکرٹری امور کشمیر و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔