پاکستان نے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر بھرپور انداز میں اٹھایا

26

اقوامِ متحدہ،25 مارچ  (اے پی پی ): پائیدار امن کے قیام کے لیے تنازعات کی بنیادی وجوہات کے حل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے، پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) پر زور دیا ہے کہ وہ مسئلہ جموں و کشمیر کے حوالے سے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ذمہ داری پوری کرے۔

پاکستان نے یاد دہانی کرائی کہ مسئلہ جموں و کشمیر بدستور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اس کا منصفانہ اور حتمی حل تاحال اس کے متعلقہ قراردادوں کے مطابق باقی ہے،جن میں کشمیری عوام کو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں استصوابِ رائے کے ذریعے اپنے حقِ خودارادیت کے حصول کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پاکستان نے زور دیا کہ یہ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کے اس حق کو یقینی بنائے اور تنازعے کے منصفانہ اور دیرپا حل کے لیے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کرے۔

وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی و وزیرِ مملکت سید طارق فاطمی نے یہ بات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں منعقدہ اعلیٰ سطحی کھلی بحث “بین الاقوامی امن و سلامتی کا تحفظ: اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کی مطابقت پذیری کو فروغ دینا – نئے حالات کے تقاضوں کا جواب” کے دوران کہی۔

انہوں نے اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔ انہوں نے ذکر کیا کہ 1949 میں قائم ہونے والا اقوامِ متحدہ کا فوجی مبصر گروپ برائے بھارت و پاکستان (UNMOGIP) بین الریاستی تنازعات کی نگرانی کرنے والے مشنز کی ایک نمایاں مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کو ابتدا میں بین الریاستی تنازعات کے حل کے لیے متعارف کرایا گیا تھا، تاہم بعد ازاں انہیں اندرونی تنازعات اور خانہ جنگیوں میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔

وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی نے اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان کے طویل المدتی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ صرف سب سے طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے ممالک میں شامل ہے بلکہ امن قائم کرنے والے کمیشن کا بانی رکن بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے اب تک 48 مشنز میں 2,35,000 سے زائد امن اہلکار تعینات کیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 181 پاکستانی امن اہلکار عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، جب کہ 3,267 سے زائد پاکستانی مرد و خواتین امن دستے کے طور پر اقوامِ متحدہ کے 7 مختلف مشنز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

سید طارق فاطمی نے اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کو درپیش نئے چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ مشنز اب درج ذیل عوامل سے متاثر ہو رہے ہیں:

* بین الاقوامی سیاسی کشمکش کے باعث متضاد مقاصد اور ترجیحات

* سیاسی عزم کی کمی

* وسائل کی ناکافی فراہمی

* غیر ریاستی عناصر کی تعداد میں اضافہ

* تنازعات کی بدلتی نوعیت

* نئی ٹیکنالوجیز اور اطلاعاتی ذرائع کا اسلحے کے طور پر استعمال

انہوں نے اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کو مزید مؤثر اور جدید چیلنجز سے ہم آہنگ بنانے کے لیے پاکستان کی درج ذیل تجاویز پیش کیں:

*اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک، خصوصاً سلامتی کونسل کی جانب سے سیاسی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے والے منفی عناصر کو روکنے کے لیے زیادہ مضبوط عزم۔

* امن مشنز کے لیے واضح، حقیقت پسندانہ اور مخصوص حالات کے مطابق مینڈیٹ۔

* سیاسی حل کو ترجیح دینا، تاکہ امن مشنز منظم سیاسی اہداف کے حصول میں معاون ثابت ہوں۔

* بڑھتی ہوئی عملی ضروریات کے مطابق مناسب مالی وسائل کی فراہمی۔

* جدید تربیت، آلات اور وسائل کی دستیابی تاکہ ابھرتے ہوئے خطرات کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔

* مشن کی واپسی اور منتقلی کے لیے جامع حکمت عملی، تاکہ استحکام اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

* امن مشنز کے دوران ہی ابتدائی مرحلے میں قیامِ امن کی کوششیں، تاکہ دیرپا استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔

* امن مشنز کے مستقبل کے تعین میں فوجی دستے فراہم کرنے والے ممالک سے بامعنی مشاورت۔

سید طارق فاطمی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گزشتہ دس سالوں میں سلامتی کونسل نے کوئی نیا امن مشن تعینات نہیں کیا، حالانکہ ضرورت واضح طور پر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کو تنازعات کے شکار علاقوں میں قیامِ امن کے لیے اس اہم ذریعے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کی ارتقائی حکمتِ عملی میں فعال طور پر شامل ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پاکستان آئندہ ماہ اسلام آباد میں اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کے وزارتی سطح کے تیاری اجلاس کی میزبانی کرے گا، جس کے نتائج اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کے مستقبل پر جاری مشاورت میں شامل کیے جائیں گے۔