اسلام آباد،4اپریل(اے پی پی):وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کے زیر اہتمام وفاقی وزیر احسن اقبال کی صدارت میں سول سروسز ریفارم کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ یہ کمیٹی وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر قائم کی گئی ہے، جس کا مقصد پاکستان کی بیوروکریسی میں ہمہ گیر اصلاحات لا کر اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی، اقتصادی امور ڈویژن (EAD)، اور کابینہ سیکریٹریٹ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران کمیٹی نے سول سروس کے ڈھانچے میں “کلسٹر بیسڈ سسٹم” نافذ کرنے کی بھرپور حمایت کی۔ اس نظام کے تحت مختلف سرکاری شعبہ جات میں پیشہ ور ماہرین کی شمولیت کو فروغ دے کر کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ بہت سے سرکاری افسران کی موجودہ مہارتیں ان کے موجودہ عہدوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے ادارہ جاتی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کو بہتر بنانے کے لیے نجی شعبے کی کامیاب حکمت عملیوں کو اپنانا ضروری ہے۔
انہوں نے مختلف وزارتوں میں تکنیکی ماہرین کی کمی کو ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس خلا کو پُر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ ریاستی ادارے جدید مہارتوں سے لیس ہو کر مؤثر خدمات فراہم کر سکیں۔ خاص طور پر انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں ماہرین کی شمولیت کے لیے پیشہ ورانہ گروپس کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی تجویز دی گئی۔
وزیر احسن اقبال نے سی ایس ایس امتحان میں انگریزی کو لازمی مضمون قرار دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر سال متعدد باصلاحیت امیدوار صرف انگریزی کے پرچے میں ناکامی کے باعث مقابلے کے امتحان سے باہر ہو جاتے ہیں، جو ایک افسوسناک امر ہے۔ ان کے مطابق اگر انگریزی ہی قابلیت کا پیمانہ ہوتی، تو ہماری سول سروس دنیا کی بہترین سول سروس ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ انگریزی زبان کو ایک امتیازی آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جو عام شہریوں اور اکثریتی آبادی کے لیے رکاوٹ بن چکا ہے۔
وفاقی وزیر نے تجویز دی کہ اردو زبان کو بھی سی ایس ایس امتحان میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے کا موقع دیا جائے، تاکہ شمولیت کو فروغ ملے، قومی زبان کو تقویت حاصل ہو اور قومی تشخص کو اجاگر کیا جا سکے۔
اجلاس کے اختتام پر وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں 1973 کے سول سروس ماڈل پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ دور کے تقاضے مختلف ہیں۔ آج کا شہری زیادہ باخبر، بااختیار اور متوقع ہے، اس لیے ایک چُست، فعال، کارکردگی پر مبنی اور عوام کے لیے جوابدہ سول سروس کا قیام وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔