اسلام آباد، 17 اپریل (اے پی پی ): وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پاکستان اکیڈمی آف سائنس میں منعقدہ پالیسی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو علم پر مبنی معیشت کی طرف لے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے،جبکہ پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، اور ملک کا مستقبل قدرتی وسائل کے بجائے علم و تحقیق کی بنیاد پر طے ہوگا۔
تقریب کا عنوان “سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ برائے ڈویلپمنٹ تھا، جس میں احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے سائنسی اور تکنیکی بنیادی ڈھانچے کو قومی ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو ٹیکنو اکانومی میں بدلا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو علم پر مبنی معیشت کی طرف لے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہم ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام میں علم کا حصول فرض ہے، اور قرآن ہمیں کائنات کے اسرار دریافت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ احسن اقبال نے مسلم اسپین (الاندلس) کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں 70 پبلک لائبریریاں تھیں جن کے ذریعے یورپ کو عربی زبان میں دنیا کا علم متعارف کرایا گیا۔
انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ مسلم دنیا آبادی کے 25 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے لیکن سائنسی ترقی میں اس کا حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے، پاکستان کو اپنا کھویا ہوا علمی ورثہ دوبارہ حاصل کرنا ہوگا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آج کی دنیا میں تیل اور گیس نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور ہنر ترقی کی اصل بنیاد ہیں۔ جنوبی کوریا، سنگاپور اور اسرائیل جیسے ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع میں سرمایہ کاری کے ذریعے خود کو اکنامک سپر پاور بنایا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائنس دان اور انجینئر ترقی کے سفر میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، اور دانش یونیورسٹی کا قیام پاکستان کی تکنیکی ترقی میں ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔احسن اقبال نے “اڑان پاکستان” منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برآمدات پر مبنی معیشت ہی اس کی بنیاد ہے، اور ہمیں ٹیکسٹائل پر انحصار ختم کر کے ٹیکنالوجی برآمدات کی طرف بڑھنا ہوگا۔
انہوں نے زراعت، صحت اور تعلیم سے منسلک ٹیکنالوجی کو ترقی کی کنجی قرار دیا اور بتایا کہ کل ہی 300 زرعی سائنس دانوں پر مشتمل ایک گروپ چین میں تربیت کے لیے روانہ ہوا ہے، جو گرین انقلاب 3.0 کے اثرات سے نمٹنے کے لیے گیم چینجر بنے گا۔
احسن اقبال نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خواتین کی ٹیکنالوجی تک رسائی کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیح ہے، اور مذکورہ گروپ میں 50 فیصد خواتین سائنس دان شامل تھیں۔