سلامتی کونسل میں پاکستان کی بحری بالادستی کی کوششوں پر تنبیہ،بین الاقوامی تعاون اور قانون کی پاسداری پر زور

8

اقوام متحدہ، 21 مئی (اے پی پی): پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے میں کہا ہے کہ سمندروں کو اسٹریٹجک محاذ آرائی کے میدان کے بجائے تعاون اور مشترکہ خوشحالی کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ تاہم ایک بڑی طاقت، جو غیر محدود علاقائی بالادستی کے خواب دیکھ رہی ہے، خطرناک بحری توسیع پسندی اور اہم آبی راستوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششوں سے ایک تشویشناک طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے “بین الاقوامی تعاون کے ذریعے بحری سلامتی کو مستحکم کرنا اور عالمی استحکام کو فروغ دینا” کے موضوع پر سلامتی کونسل کے مباحثے میں قومی بیان دیتے ہوئے ان  خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کی جانے والی غیر مستحکم اور خطرناک بحری تیاریوں کے ساتھ ساتھ rigorous سفارت کاری اور پڑوسی ممالک کو علاقائی بحری سلامتی کے ڈھانچوں، خصوصاً انڈین اوشین رم ایسوسی ایشن (IORA) سے منظم انداز میں خارج کیا جا رہا ہے۔ ایسے اقدامات بحری توازن کو نقصان پہنچاتے ہیں اور جامع تعاون کی گنجائش کو محدود کرتے ہیں۔

پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ یہی ملک مشترکہ قدرتی وسائل — بشمول سرحد پار دریاؤں — کو ہتھیانے اور انہیں بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پریشان کن روش اپنائے ہوئے ہے، جو نہ صرف معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ حسنِ ہمسائیگی کے اصولوں سے بھی متصادم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات جغرافیائی برتری کو بنیاد بنا کر طویل عرصے سے جاری تعاون کو نقصان پہنچانے اور نچلی سطح پر واقع ریاست پاکستان کے خلاف یکطرفہ فیصلے مسلط کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہیں، چاہے وہ دریائی نظام ہو یا بحری دائرہ۔

 سفیر عاصم نے کہا کہ ایک بحری ریاست کی حیثیت سے پاکستان بحیرہ عرب کو اپنا “پانچواں ہمسایہ” تصور کرتا ہے، جو اس کے اقتصادی وژن اور اسٹریٹجک سمت کا اہم حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا منفرد جغرافیائی محلِ وقوع اسے وسطی ایشیائی خشکی سے گھرے ممالک کے لیے تجارتی اور ترسیلی مرکز بنانے کی نمایاں صلاحیت فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ساحلی ریاست ہونے کے ناتے،جو شمالی بحیرہ عرب میں اہم عالمی سمندری راستوں کے سنگم پر واقع ہے، پاکستان ایک محفوظ اور بین الاقوامی قانون کے تابع بحری دائرے کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “ہماری قومی سلامتی، اقتصادی مضبوطی، علاقائی رابطہ کاری، اور خوراک و توانائی کی سلامتی براہِ راست ہمارے سمندروں کی پائیداری اور کشادگی سے جڑی ہوئی ہے،”۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بحری خطرات کثیر الجہتی اور سرحد پار نوعیت کے ہیں، جن میں قزاقی، دہشت گردی، اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ، بندرگاہی ڈھانچے میں سائبر خطرات، سمندری آلودگی، اور ساحلی علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات شامل ہیں۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اور مربوط اقدام درکار ہے جو بین الاقوامی قانون پر مضبوطی سے مبنی ہو۔

انہوں نے کہا کہ بحری سلامتی بین الاقوامی امن و استحکام سے علیحدہ نہیں، اور ہمیں بحری حدود کو سیاسی یا اسٹریٹجک مفادات کے لیے استعمال کرنے کی ہر کوشش کو اجتماعی طور پر رد کرنا ہوگا۔ انہوں نے ایک محفوظ اور پائیدار بحری مستقبل کے لیے کثیرالجہتی، مساوات، اور تعاون پر مبنی عزم کی تجدید پر زور دیا۔

پاکستان نے بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں اور بحری جہازوں پر ہونے والے حملوں کی بھی شدید مذمت کی، جو عالمی تجارت، علاقائی استحکام، اور عالمی بحری سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

تاہم سفیر عاصم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں حوثیوں کی جانب سے کسی تجارتی جہاز پر کوئی حملہ رپورٹ نہیں ہوا۔

انہوں نے عالمی برادری کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی کہ سمندری و ساحلی نظاموں کو درپیش بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات کا فوری حل نکالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سمندر کی سطح میں اضافہ، تیزابیت، اور ساحلی کٹاؤ روزگار، ماحولیاتی نظام، حیاتیاتی تنوع، اور بحری استحکام کے لیے سنگین خطرات ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ کوئی بھی جامع بحری سلامتی حکمت عملی “موسمیاتی-بحری تعلق” کو اپنے اندر شامل کرے اور سمندری وسائل تک منصفانہ رسائی کو یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ “پاکستان تمام ممالک کے ساتھ مل کر بحری دائرے کی سالمیت کے تحفظ، بین الاقوامی قانون کی پاسداری، اور ہمارے سمندروں کو کھلا، پرامن اور پوری انسانیت کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے کام کرنے کو تیار ہے۔”