بچوں کی حفاظت اور ملک کے مستقبل کے لیے والدین کی نگرانی ناگزیر ہے،ڈی جی وزارت انسانی حقوق

22

اسلام آباد، 07 جولائی (اے پی پی ): وزارتِ انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل عبد الستار نے ایک خصوصی انٹرویو میں بچوں کے حقوق اور انسانی حقوق کے قومی و عالمی سطح پر تحفظ سے متعلق حالیہ پیش رفت اور درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی۔

ادارہ جاتی ڈھانچے پر بات کرتے ہوئے عبد الستار نے بچوں، خصوصاً بچیوں کے تحفظ میں قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال (NCRC) اور قومی کمیشن برائے وقارِ نسواں (NCSW) کے اہم کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا “یہ بچیاں اپنے حقوق اس طرح سے نہیں پا رہیں جیسا کہ انہیں ملنے چاہئیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے قومی کمیشن مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔”

انہوں نے “چائلڈ میرج پروہیبیشن ایکٹ 2016” اور حال ہی میں متعارف کرائے گئے “ارلی چائلڈ میرج رِسٹریننگ ایکٹ” کا حوالہ دیا، جو شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ “نیا قانون بچوں کو مزید تحفظ دیتا ہے، لیکن اصل چیلنج اس پر عملدرآمد کا ہے، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں”۔

عملدرآمد کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد انسانی حقوق کا دائرہ اختیار صوبوں اور اضلاع کو منتقل ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ”اب انسانی حقوق ایک صوبائی معاملہ ہیں۔ ہر ضلع، خصوصاً بلوچستان اور سندھ میں، اپنی سماجی فلاح و بہبود کی تنظیمیں موجود ہیں۔ وفاقی سطح پر ہمارا کردار پالیسی سازی، رابطہ کاری اور بین الاقوامی رپورٹنگ تک محدود ہو چکا ہے”۔

عالمی سطح پر پاکستان کی ذمہ داریوں پر بات کرتے ہوئے ڈی جی نے کہاکہ”ہم نے 9 میں سے 7 بنیادی انسانی حقوق کے کنونشنز کی توثیق کی ہوئی ہے، اور ان کے تحت باقاعدگی سے رپورٹس بھی جمع کرواتے ہیں۔ بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا دفاع بھی ہماری ذمہ داری ہے۔”

جب ان سے ہیلپ لائن سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وزارت کی 1099 ہیلپ لائن بچوں کے ساتھ زیادتی، کم عمری کی شادیوں اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کے لیے ایک مرکزی نظام بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ “شکایات موصول ہوتی ہیں، ہماری آئی ٹی سسٹم میں ڈیجیٹل طور پر درج کی جاتی ہیں، اور ملک بھر میں متعلقہ اداروں کے ساتھ ان پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔”

بچوں سے مزدوری اور بھیک منگوانے، خصوصاً افغان پناہ گزین بچوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مربوط اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے بتایاکہ “ہم مشاورتی کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مقامی حکومتیں اصل عملدرآمد کی ذمہ دار ہیں۔ اسلام آباد میں چیف کمشنر آفس اور پولیس اس حوالے سے متحرک ہیں۔”

انہوں نے GSP+ تجارتی حیثیت کے تحت انسانی حقوق کی کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “بین الاقوامی معاہدوں اور کنونشنز پر ہماری پاسداری ہمارے تجارتی مفادات سے منسلک ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ صرف اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ معاشی ضرورت بھی ہے۔”

عبد الستار نے بڑھتے ہوئے سائبر خطرات کے تناظر میں بچوں کی ڈیجیٹل دنیا میں حفاظت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ “انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ بچے آن لائن زیادتی، سائبر بُلیئنگ اور ہراسانی جیسے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر قریبی نظر رکھیں۔”

انہوں نے تصدیق کی کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے وزارتِ انسانی حقوق نے دیگر اداروں کے تعاون سے ایک خصوصی سائبر وِنگ قائم کیا ہے۔”یہ سائبر ونگ بچوں کے خلاف آن لائن جرائم، ہراسانی اور استحصال کے معاملات پر فوری ردعمل دیتا ہے، اور FIA اور دیگر اداروں کے ساتھ مربوط ہو کر کام کرتا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ یہ سائبر وِنگ تحقیق کے ساتھ ساتھ تعلیمی کردار بھی ادا کر رہا ہے۔

“ہم اسکولوں، عوامی مہمات اور کمیونٹی آؤٹ ریچ کے ذریعے ڈیجیٹل لٹریسی اور محفوظ انٹرنیٹ کے استعمال پر آگاہی دے رہے ہیں۔ مقصد صرف سزا نہیں بلکہ سائبر جرائم کی روک تھام ہے۔”

انہوں نے والدین سے بچوں کی نگرانی اور تربیت پر زور دینےکے حوالے سے کہنا تھا کہ بچوں کے پاس آج ٹیکنالوجی موجود ہے، لیکن ہمیشہ صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ والدین، اساتذہ، اور حکومت کو مل کر بچوں کے لیے ایک محفوظ ڈیجیٹل ماحول فراہم کرنا ہوگا۔وزارت سول سوسائٹی اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر رپورٹنگ نظام اور مواد کے ضابطے بھی لاگو کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ “اگر کسی بچے کو آن لائن نقصان دہ مواد یا مشکوک افراد کا سامنا ہو، تو فوری اور محفوظ طریقے سے اس کی اطلاع دینے کا نظام ہونا چاہیے،”

ڈیجیٹل نظام کے فروغ کے ساتھ ساتھ، انہوں نے کہا کہ “سائبر سیکیورٹی کو قومی ترجیح بنانا ہوگا۔ ڈیجیٹل حقوق بھی انسانی حقوق ہیں۔ جیسے ہم بچوں کو گھروں اور اسکولوں میں محفوظ رکھتے ہیں، ویسے ہی ہمیں انہیں ڈیجیٹل دنیا میں بھی تحفظ دینا ہوگا۔”

اختتام پر عبد الستار نے وزارت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئےکہاکہ “قوانین موجود ہیں، ادارے کام کر رہے ہیں، اور بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھائی جا رہی ہیں۔ لیکن اگر مقامی سطح پر مؤثرعملدرآمد اور آگاہی نہ ہو، تو ایک حقوق پر مبنی معاشرے کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔”

انہوں نے ملک بھر کے والدین سے اپیل کی کہ وہ بچوں کی پرورش اور نگرانی میں فعال کردار ادا کریں۔صرف موبائل کے نشے یا آن لائن مواد سے بچانے کے لیے نہیں، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ بچے غلط صحبت میں نہ پڑیں۔ گھر کی اچھی تربیت ہی پہلی دفاعی دیوار ہے۔ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں اور انہیں ذمہ داری، اقدار اور اخلاق کے ساتھ پالنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسکولوں اور ریاست کے ساتھ ساتھ، خاندانوں کا بھی بچوں کی ذہنی اور جذباتی صحت کے تحفظ میں کلیدی کردار ہے۔

عبد الستار نے بچوں کے اغوا یا گمشدگی کے معاملات پر کمیونٹی کی سطح پر چوکس رہنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ اور کہا کہ اگر کسی بچے کے لاپتہ یا اغوا ہونے کا شبہ ہو، تو فوری طور پر ہیلپ لائن 15 پر پولیس کو اطلاع دیں۔ وقت ضائع کیے بغیر اطلاع دینا جانیں بچا سکتا ہے۔

وزارتِ انسانی حقوق قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کمیونٹیز کے درمیان بہتر رابطے کو فروغ دے رہی ہے تاکہ تیزی سے ردعمل ممکن بنایا جا سکے۔ ساتھ ہی عوامی آگاہی کی مہمات کے ذریعے محفوظ والدینیت، بچوں کی حفاظت، اور رپورٹنگ کے طریقہ کار پر کام جاری ہے۔

عبد الستار نے کہا کہ “بچوں کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ گھر سے لے کر اسکول، گلی، اور سڑک تک ہر جگہ بچوں کو محفوظ بنانا ہوگا”۔