چترال (گل حماد فاروقی) یونیورسٹی آف چترال میں نباتات یعنی باٹنی پر 2018 کا بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ اس بین الاقوامی کانفرنس کا موضوع تھا Digitization and Documentation of Plant & Natural Resources in Chitral. یعنی چترال میں پودوں، نباتات اور قدری وسائل (ذحائیر) کی دستاویز بنانا اور اس کی ریکارڈ رکھنا۔ اس موقع پر امریکی یونیورسٹی کی ڈائریکٹر انٹرنیشنل انٹر ماﺅنٹین ہربارئیم مہمان حصوصی تھی جبکہ ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد علی سودھر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اس کانفرنس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ستر ماہرین کے علاوہ چھ ممالک سے بین الاقوامی اہمیت کے حامل محقیقین اور ماہرین نے شرکت کی جنہوںنے اس مضمون میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہیں اور کافی ریسرچ بھی کی ہے۔
کانفرنس کی شرکاء کی رجسٹریشن ڈاکٹر محمد رومان نے کی۔ چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر نے استقبالیہ حطبہ پیش کرتے ہوئے مقالہ جات پڑھنے والے اور دیگر مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور ان کا شکریہ ادا کیاکہ وہ اس اہم موضوع پر اس بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں جن میں کثیر تعداد میں ماہرین بیرون ممالک سے بھی اپنے مقالہ جات پیش کریں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی پر پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سراج الدین ڈیپارٹمنٹ آف باٹنی نے اپنا مقالہ پیش کیا۔
ملاکنڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نثار نے بھی اسی موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ نارتھ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ آف پلاٹیو بیالوجی چائنیز اکیڈیمی آف سائنس چین کے پروفیسر ڈاکٹر ذانگ فاقی نے نباتات کے محتلف شاحوں، افادیت اور تحفظ کے طریقوں پر مقالہ پیش کیا۔
سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رابعہ آسما میمن نے پودوں اور حیاتیاتی تنوع آف صحرائے تھر کی تحفظ بذریعہ بوٹانیکل گارڈن پر اپنا مقالہ پیش کی۔
سوات یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حیدر علی نے چترال میں نباتات کی تلاش پر مقالہ پیش کیا۔ ملاکنڈ یونیورسٹی کے پرفیسر ڈاکٹر طور جان نے کریپ کی تحفظ پر مقالہ پیش کیا جو ایسا جڑی بوٹی ہے جو کینسر کی علاج میں کافی ممد ثابت ہوتا ہے اور اس سے کینسر جیسے موذی مرض کا بھی علاج کیا جاسکتان ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر ظہور الحق نے ویٹرو اور ویوو وغیرہ پر مقالہ پیش کی۔
اوتاھ سٹیٹ یونیورسٹی لوگان آف امریکہ ک ڈائیریکٹر انٹر مونٹین ہعرباریئم کے ڈائیریکٹر پروفیسر ڈاکٹر میری الزبتھ نے ڈیٹا شیرنگ اور نباتات کے افادیت پر مقالہ پیش کی۔کانفرنس کے دوران سوال و جواب کا بھی سیشن ہوا جس میں ماہرین نے جواب دئے۔
ڈپٹی کمشنر چترال اور یگر ماہرین نے کہا کہ چترال میں پائے جانے والے پودوں کی ڈکمنٹیشن پر یہ کانفرنس نہایت اہمیت کا حامل ہے انہوںنے کہا کہ چترال میں نہایت قیمتی اور مفید پودے، جڑی بوٹی پائے جاتے ہیں ان کی تحفظ اور باقاعدہ تحریری اور فلمبندی کے ذریعے دستاویزی طور پر محفوظ کرنے سے باٹنی کے طلبائ، تحقیق کاروں کیلئے نہایت مفید ہوگا۔ ماہرین نے کہا کہ ان پودوں، جڑی بوڑی، سبزی کو کمرشل سطح پر اگر استعمال کیا جائے تو اس سے غربت میں بھی کمی آئے گی۔ ماہرین نے کہا کہ ایک سبزی جسے مقامی زبا ن میں پمنکے کہا جاتا ہے جو زقوم کے پودے کی طرح چھوٹے شکل میں ہوتا ہے اس کا ذائعہ تھوڑا کڑوا ہوتا ہے مگر نہایت مفید پودا ہے جسے لوگ 300 روپے فی کلو خرید کر سبزی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
اس کانفرنس میں بین الاقوامی اہمیت کے حامل سائنسدان، ماہرین حصہ لے رہے ہیں جو چترال میں پودوں اور قدرتی ذحائیر (وسائل) کی دستاویزی پر اپنے مقالہ جات پیش کررہے ہیں یہ کانفرنس 2اپریل تک جاری رہے گا۔ جس میں چھ بیرون ممالک سے بھی ماہرین حصہ لے رہے ہیں۔
اس کانفرنس سے چترال کو نہایت فائدہ ہوگا اور یہاں پائے جانے والے پودوں کی تحفظ کے بارے میں عوام میں بھی آگاہی آئے گی۔