اسینیٹر داود خان اچکزئی کی صدارت میںسینیٹ ذیلی کمیٹی کا اجلاس

523


سلام آباد،31 مارچ( ا پ پ): سینیٹ ذیلی کمیٹی برائے تفویض کردہ قانون سازی کا اجلاس کنونیئر کمیٹی سینیٹر داو¿د خان اچکزئی کی صدارت میں جمعہ کو پارلیمنٹ ہاو¿س میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ کے رولز اور پاکستان ٹیلی کام ایکٹ1996 میں اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کی طرف سے تجویز کردہ ترامیم کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کو قواعد و ضوابط کے حوالے سے مسائل کا سامنا نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور ادارے سے ہمیں قوانین کے حوالے سے کوئی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹرسٹ کے چھ ممبران ہیں جن میں سے تین ممبران وفاقی حکومت اور تین پی ٹی سی ایل کی طرف سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ ممبران کی تقرری تین سال کے لئے ہوتی ہے۔ حکومت کا پی ٹی سی ایل میں62 فیصد حصہ ہے ،آمدن کا حصہ حکومت کو فراہم کر دیا جاتا ہے، ٹرسٹ ملازمین کی پنشن کو ڈیل کرتا ہے۔ دو انٹرنل آڈٹ ہوتے ہیں آڈیٹر جنرل یا بیرونی آڈٹ نہیں ہوتا۔ جس پر رکن کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ کسی آزاد ادارے سے بھی آڈٹ کرایا جائے تاکہ معاملات میں مزید شفافیت اور بہتر ی لائی جا سکے۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ٹیلی کام ایکٹ1996 میں اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (SCO)کی طرف سے تجویز کردہ ترمیم کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ حکام نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ سیکشن 40 میں ترامیم کی درخواست کی گئی ہے۔ ایس سی او کو وزیراعظم کی ہدایت پر مخصوص علاقوں شمالی علاقہ جات و آزاد جموں و کشمیر میں ٹیلی کام کی سہولیات کی فراہمی کے لئے قائم کیا گیا تھا یہ ادارہ حکومت سے فنڈ حاصل کرتا ہے۔ گلگت بلتستان کے 141 اور آزاد جموں و کشمیر کے 85 ایسے مقامات ہیں جہاں صر ف یہ ادارہ ٹیلی کام کی سہولیات فراہم کر رہ ہے۔ قانون کے تحت ہمیں انہی علاقوں کیلئے محدود کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ادارہ سالانہ ایک ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ جبکہ پرائیوٹ کمپنیاں بھی اے جے کے اور گلگت بلتستان میں ٹیلی کام کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ ہم اپنی پوری ٹریفک کو استعمال میں نہیں لا پارہے ہیں۔ فور جی کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے ہم تیار ہیں۔ ہمیں لائسنس فراہم کیا جائے۔ سی پیک منصوبے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان سے اسلام آباد تک فائبر آپٹک کا 60 فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ ہمیں پورے پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ہم بین الاقوامی کمپنیوں کا مقابلہ بھی کرسکیں اور حکومت کو آمدن بھی فراہم کر سکیں۔ ہمیں بغیر فیس کے لائسنس کا اجراءکرایا جائے اور ادارے کو آزاد و خود مختار بنایا جائے۔ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اتنے اختیارات دیئے جائیں کہ پورے ملک میں کام کر سکیں۔ ہمیں این ٹی سی کے قوامین کی طرح ترامیم کر کے اختیارات دیئے جائیں۔
جس پر کنونیئر کمیٹی محمد داو¿د خان اچکزئی نے کہا کہ جب ایس سی اور کو کام کرنے کا دائر اختیار صرف جی بی اور اے جے کے تک محدود ہے تو پھر اسلام آباد تک کس قانون کے تحت انہیں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ان کو بھی دیگر کمپنیوں کی طرح کام کی اجازت دی جائے تاکہ یہ بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ ایس سی او وزارت ٹیلی کام کے ساتھ معاملات کا تفصیلی جائزہ لے اور دو ہفتے کے بعد ایک رپورٹ مرتب کر کے کمیٹی کو پیش کرے۔ اراکین کمیٹی سینیٹرز محمد جاوید عباسی اور کلثوم پروین نے کہا کہ ادارے نے جو تجاویز تجویز کیں ہیں وہ بہت بڑی ہیں لگتا یہی ہے ادارے نے تفصیلی سٹڈ ی و قانونی ونگ سے مشاورت کے بغیر کمیٹی کو بھیجی ہیں۔ یہ ترامیم کرنا بہت مشکل ہے بہتر یہی ہے کہ ادارہ پہلے وزارت آئی ٹی و قانونی ونگ سے تفصیلی مشاورت کر کے ایک جامع رپورٹ پیش کرے۔
سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ ادارہ کو وزارت فنڈز فراہم کرے اور یہ دیئے گئے علاقوں میں سو فیصد ٹیلی کام کی سہولیات فراہم کرے۔
اجلاس میں جوائنٹ سیکرٹری آئی ٹی سید خالد گردیزی،ایس سی او کے بریگیڈیئر (ر) وہاب ، جنرل منیجر محمد فاروق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
اے پی پی /سحر ا ن م