مزاح  کا عہد یوسفی تمام ہوئے  ایک برس بیت  گیا 

262

اسلام آباد ، 20 جون (اے پی پی ): مزاح  کا عہد یوسفی  تمام ہوئے  ایک برس بیت  گیا۔ دبلا پتلا وجود، آنکھوں میں میٹھی سی شرارت ، لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اور لفظوں میں ایسا جادو کہ روتی آنکھوں سے موتی چرا کر مسکراہٹ کے دیپ جلا دے۔  اردو ادب خصوصاًًطنز و مزاح کا یہ شاندار باب 20 جون 2018 کو ہم سے جدا ہو کر راہی ملک عدم ہوا اور سب کو اداس کر گیا۔
مشتاق احمد یوسفی 4ستمبر 1923کو ریاست راجستھا ن کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے تھے۔ آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم-اے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور تقسیم کے بعد کراچی آ کر بینک میں ملازمت اختیار کی ،ان کی مزاح پر 5کتابیں چراغ تلے ، خاکم بدہن  ،زرگزشت آبِ گم ،شامِ شعرِ یاراں مقبول عام ہوچکی ہیں۔ انہیں حکومت پاکستان نے ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔
یوسفی کے ہاں مزاح اور طنز کا بخوبی استعمال کر کے جس تخلیقی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال اردو ادب میں ملنی محال ہے۔   انھوں نے مزاح پیدا کر نے کے لئے ایسے موضوعات اور عام موضوعات کے ایسے انوکھے پہلو چنے جن پر کسی نے اس طرح کی چونکانے والی باتیں نہ کی ہوں گی۔  بقول ابنِ انشا بچھو کا کاٹا روتا ہے، سانپ کا کاٹا سوتا ہے اور یوسفی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1955 میں مضمون ”صنف لاغر” سے شروع ہوا جس کے بعد مختلف رسالوں میں گاہے گاہے ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔1961 میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو یکجا کر کے مشتاق احمد یوسفی کا پہلا مجموعہ ”چراغ تلے” کے نام سے منظر عام پر آیا
مشتاق احمد یوسفی نے ہجرت کی کربناکیوں کو بھی اپنے تخلیقی شعور کے ذریعے طنزیہ ومزاحیہ ادب کا حصہ بنادیا۔ان کی تخلیقات میں سماج کی بدلتی قدروں اورماضی کی یادوں کا ایسا منظرنامہ موجود ہے جس کی روشنی میں ہم انسان زندگی اور اس کے ذہنی وفکری شعور کو بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی کے ہاں مزاح نگاری کے ساتھ ساتھ طنزیہ تحریر یں بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ جس میں انہوں نے سیاست ، سماج ، مذہب اورادب میں پیدا ہونے والے رویوں اورخامیوں کو نشانہ طنز بنایاہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی ان تحریروں نے معاشرے کی ان سچائیوں کو اجاگر کر دیا اور اپنے موضوعات کے لیے ہمیشہ انسانی زندگی کے روز مرہ کی معمولات اوران سے متعلق چیزوں سے کام لیا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کے مطالعے سے یہ پتہ چلتاہے کہ ان کی تحریروں میں ماضی کی حسین یادوں کے ساتھ سماجی، سیاسی، تہذیبی اورادبی کارفرمائیاں بھی موجود ہیں جسے انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت اور فن کاری سے اردو زبان کے طنزیہ ومزاحیہ ادب کا حصہ بنا دیا۔ان کی تحریروں میں طنزومزاح کی وہ پرلطف روانی موجود ہے جسے پڑھ کر اردو زبان کے مزاحیہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کاگرویدہ نظر آتاہے۔
یوسفی اردو ادب کا وہ روشن ستارہ ہے جو ہمیشہ روشنی بکھیر کر راستہ دکھاتا رہے گا اور ان کا ہر ہر لفظ اپنے پڑھنے والوں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتا رہے گا۔

وی این ایس اسلام آباد