اسلام آباد ، 23 دسمبر (اے پی پی): مشترکہ مفادات کونسل نے نیٹ ہائیڈل کے معاملے پر اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دینے، پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے ٹیلی میٹری نظام نصب کرنے، تیل کی تلاش و پیداوار کی پالیسی کی منظوری، اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کے تعین کا اختیار وفاقی حکومت کو دینے اور اوگرا آرڈیننس 2002ءمیں ترمیم کی منظوری دی ہے۔
پیر کو وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے 41 واں اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ اجلاس کے آغاز میں مشترکہ مفادات کونسل کے گزشتہ فیصلوں پر عمل درآمد کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات نے بتایا کہ اجلاس کو نیٹ ہائیڈل منافع اور اس ضمن میں صوبوں کے درمیان طے پانے والے اے جی ایم قاضی فامولے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے میں دستور کی متعلقہ شق پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو زمینی حقائق، مالی اور دیگرعوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے سفارشات مرتب کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں ملک میں پانی کے وسائل کی تقسیم کے حوالے سے اٹارنی جنرل کی سفارشات پیش کیں۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ پانی کے وسائل کی تقسیم نہ صرف منصفانہ ہو نی چاہیے بلکہ تمام صوبوں کے عوام کو اس بات کا پختہ یقین ہو کہ پانی کے وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو رہی ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پانی کے تقسیم کے معاملے میں قانونی ماہرین اور پانی سے متعلقہ تکنیکی ماہرین ملکر سفارشات مرتب کریں۔ کمیٹی ایک ماہ میں سفارشات مرتب کرکے مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے پیش کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں پانی کی مقدار جاننے کے لئے ٹیلی میٹری نظام کی جلد از جلد تنصیب یقینی بنائی جائے گی۔
معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ سی آربی سی (چشمہ رائٹ بنک ) کنال خیبر پختونخوا کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ چار ہفتوں میں اس منصوبے کے تخمینوں کا جائزہ لے کر پی سی ون سے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔ ماضی میں نیٹ ہائیڈل پرافٹس کی مد میں صوبوں کو ادائیگیوں کے لئے واپڈا کی جانب سے 105ارب روپے کے قرض پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے ضمن میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ گیارہ ارب روپے کی اس رقم کو نیپرا کے ٹیرف کے ذریعے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ چشمہ جہلم لنک کنال پر 25 میگا واٹ کے پاور پلانٹ کی تعمیر کے معاملے پر ارسا کی جانب سے این او سی کے معاملے پر صوبہ سندھ کے تحفظات پر گفتگو کرتے ہوئے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چشمہ لنک کنال پر مذکورہ پاور پلانٹ کی تعمیر اور اس بجلی کی قیمت وغیرہ جیسے پہلوﺅں کا توانائی کے شعبے میں25 سالوں کی منصوبہ بندی کے تناظر میں تفصیلی جائزہ لیا جائے۔اس ایجنڈے کو اگلے اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔
چئیرمین اور ممبر واپڈا کی تقرری کے حوالے سے قواعدو ضوابط پر غور کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ چئیرمین واپڈا کی تقرری وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پالیسی کی سطح پر واپڈا بورڈ میں تمام صوبوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے اور چئیرمین کے عہدے کے لئے تمام صوبوں کو موقع ملنا چاہیے۔
معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ اجلاس میں پٹرولیم (تلاش و پیداوار) پالیسی 2012 میں ترامیم کی منظوری دی گئی۔ ان ترامیم کی رو سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ جہاں ایکسپلوریشن کے لائسنسز میں توسیع کی شق ڈالی گئی ہے وہاں اس عمل میں صوبوں کوبھی اس عمل میں شراکت دار بنایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایل این جی کی امپورٹ کے معاملے میں صوبہ سندھ کے تحفظات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ایل این جی کے معاملے میں سندھ کے بیشتر تحفظات حل کیے جا چکے ہیں۔ ایل این جی کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 158اور ایل این جی کی بطورگیس یا پٹرولیم پراڈکٹ تعین کرنے کے لئے معاون خصوصی ندیم بابر اور وزیرِ اعلیٰ سندھ معاملات بات چیت کے ذریعے طے کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی اور صوبائی فوڈ اتھارٹیز کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ معیار کا تعین (اسٹینڈرڈز) وفاقی سطح پر کیا جائے گا اور اس عمل میں تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہوں گے جبکہ معیار پر عمل درآمد کو صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کی سطح پر یقینی بنایا جائے گا۔ اس اقدام کا مقصد کاروباری برادری کی مشکلات کو دور کرنا ہے۔
معاون خصوصی نے بتایا کہ اجلاس میں حویلی بہادر شاہ (1230 میگاواٹ) اور بلوکی پاور پلانٹ (1223 میگاواٹ) کی نجکاری کے حوالے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آبادی میں اضافے پر کنٹرول کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر قائم ٹاسک فورس کی اب تک پیش رفت پر اجلاس کو بریفنگ دی گئی۔
بعد ازاں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیراعظم نے تحمل سے تمام صوبوں کا نقطہ نظر سنا، عوام کی بہتر انداز میں خدمت وزیراعظم کی ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ منفی پروپیگنڈا کے باعث پولیو پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پرچی پر چیئرمین بننے والا بلاول عمران خان کو منتخب وزیراعظم نہیں مانتا، بلاول بھٹو دوہرے معیار پر چل رہے ہیں، وزیراعظم پیپلز پارٹی کے نہیں سندھ کے وزیراعلیٰ سے مل رہے تھے، وزیراعظم نے سب سے زیادہ وقت وزیراعلیٰ سندھ کو دیا، وزیراعظم کسی صوبے سے سوتیلی ماں کا سلوک نہیں کرنا چاہتے۔
وی این ایس، اسلام آباد