” ‘کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ، 2010’ پر عملدرآمد اور چینلجز “

309

اسلام آباد ، 20 مارچ ( اےپی پی): پاکستان میں دفاتر میں کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ ، 2010‘‘ نافذ کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب قانون سازی کے ذریعے ملک میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی تعریف کی گئی ہے۔ اس قانون سے پہلے سرکاری، نجی یا کام کے مقامات پر ہراساں کرنے کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں تھی۔   حکومت پاکستان نے نہ صرف کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں ہونے سے بچنے کے لئے ایک خصوصی قانون نافذ کیا بلکہ اس کے تحت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 509میں بھی ترمیم کی گئی۔ اس میں ہراساں کرنے کی واضح وضاحت کی گئی ہے، جس میں کام کی جگہ پر ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔ اس قانون کے تحت مجرم کو ایک سے تین سال تک کی سزا یا5لاکھ روپےتک جرمانہ یا دونوںسزائیں ایک ساتھ ہوسکتی ہیں۔

کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ دینے کے ایکٹ کے دس سال مکمل ہونے پر مہر گڑھ کی جانب سے پانچ مارچ دو ہزار بیس کو ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں خواتین نے بھرپور شرکت کی۔

مہر گڑھ اس قانون کے اطلاق کیلئے گزشتہ دس سال سے کام کر رہی ہے۔

تقریب میں میزبانی کے فرائض توثیق حیدر نے انجام دیے جو اس قانون بننے کے عمل کا ایک طویل عرصے سے حصہ رہے ہیں۔ مختلف شعبوں کے نمائندگان نے شرکا سے قانون کے اطلاق سے متعلق اپنے ادارے کی کارکردگی بیان کی۔

مہرگڑھ نے اپنی رپورٹ میں مذکورہ ایکٹ کے نفاذ، اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں، ایکٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے سفارشات کو شامل کیا ہے تاکہ اسے مزید بہتر کیا جاسکے۔ مہر گڑھ کی سربراہ ملیحہ حسین نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ ان کی تنظیم نے1000 سے زیادہ آرگنائزیشنز کو ایکٹ کے نفاذ میں مدد کی، 23،000 سے زائد پیشہ ور افراد کو تربیت دی ہے اور 4000 سے زیادہ جنسی ہراسانی کے معاملات میں متاثرین کی مدد کی ہے۔

تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر فوزیہ سعید نے قانون کے نفاذ کی راہ میں درپیش چیلنجز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنسی ہراسانی کے قانون کا سب سے بڑا چیلنج ان لوگوں اور اداروں کی جانب سے ہے جو اپنے ذاتی مفاد اور فنڈنگ کے لیے قانون میں ترامیم کراتے ہیں۔ تمام شرکاء نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے قانون پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اس کے نفاذ کے عمل کو آگے بڑھانے کا عہد کیا۔

وی این ایس، اسلام آباد